کمرے سے آتی آواز پر صفدر ٹھٹھک گیا.
"مجھے آپ چاچو مت سمجھیں، امی! سیدھی طرح بتائیں. آپکو میری شادی کرنی ہے یا نہیں"؟ عمران اونچی آواز میں کہ رہا تھا.
"دیوانہ ہوا ہے، دیکھ تو رہی ہوں رشتے". عذرا نے تنک کر کہا.
"جیسے آپ چاچو کے دیکھتی آئی ہیں، ووہی ہیں جو آپکا اعتبار کر رہے ہیں". اس نے طنزیہ کہا.
"ہاں تو وہ شریف لڑکا ہے".
"اب ادھیڑ عمر مرد کو لڑکا تو نہ کہیں،" عمیر نے تمسخرانہ انداز میں کہا.
"باکو مت". کس طرح بات کر رہے ہو، کبھی اس نے مجھ سے اونچی آواز میں بات نہیں کی اور تم دیکھو خود کو". عذرا نے اسکو
جھڑکھتے هوئے کہا.
"اپنے حق کے لئے بولنا کوئی غلط نہیں ہے، میں اب جاب کرتا ہوں اپنی فیملی کو چلا سکتا ہوں تو میری شادی ہو جانی چاہیے".
"ہاں تو میں نے کب انکار کیا ہے، کوئی لڑکی پسند آتے تو..."
"آپ کو کوئی لڑکی پسند نہیں آتے گی مجھے پتا ہے". اس نے بات کاٹ کر کہا. "میں نے لڑکی پسند کر لی ہے اور اتوار کو جائیں گی
نشاط کے گھر".....
نشاط..... کون .....نشاط....؟ عذرا نے حیرت سے پوچھا.
"میرے ساتھ آفس میں کام کرتی ہے".
"غضب خدا کر نوکری کرنے والی لڑکیوں کی تو ویسے ہی دیدہ ہوائی ہوتی ہےوہ .بھلا..... عمران نے پھر بات کاٹ دی.
"نشت میری پسند ہے اور میں اسی سے شادی کروں گا".
"میں نہیں جاؤں گی"، وہ غصّے سے بولی.
"نہ جائیں مذہب اور قانون ہمیں اجازت دیتا ہے".
"آنے دو اپنے ابّا کو میں..."
"مجھے ابا کی دھمکی مت دیں. میں نے جو کہ دیا سو کہ دیا." عمران نے غصّے سے کہا اور کمرے سے چلا گیا. صفدر دیوار سے لگ کر
کھڑا تھا اسے لگا جیسے اسکا سانس روک جاتے گا.
...............................................................
تزین کی رضامندی کے بعد صفدر نے جمیلہ خالہ سے بات کی اور اس وقت وہ انہی کے پاس بیٹھا تھا.
"میں نے بات کی تھی تمہارے خالو سے وہ کہتے ہیں کیا گرانٹی ہے کہ تم تزین کو خوش رکھو گے.... پہلے آفرین کے ساتھ..." جمیلہ خالہ کہ رہیں تھیں.
"خالہ! آفرین کا طعنہ مت دیں ٹیب واقع میری غلطی تھی مگر اب تیرہ سال گزر گئے ہیں. آپ میری اعتبار کریں میں تزین کی ذمہ داری اچھی طرح پوری
کروں گا".
جمیلہ خالہ سوچ میں پر گئیں.