میں حیرت کے گٹر ' میرا مطلب ہے کہ میں حیرت کے دریا ڈبکیاں کھانے لگی۔ میرے کھانے کی رفتار مزید کم ہو گئ اور فلک کے کھانے کی سپیڈ باؤلے گھوڑے کی مانند مزید تیز ہو گئ۔ اس نے جھٹ پٹ دوسری روٹی ختم کر کے تیسری روٹی اٹھا لی تو میں حیرانی کے سمندر میں مرنے والی ہو گئ۔ تیسری روٹی کے اختتام سے پہلے ملازمہ کی اواز آ گئ۔
" بی بی جی ۔۔۔ چاۓ میں ابال آ گیا ہے۔"
"اوئ میں مر گئ۔ ابھی آئ۔"
" بیٹا کھانا تو پیٹ بھر کر کھا لو۔" ساسو ماں پیار سے بولیں ۔
" نہیں امی! بس اب بھوک مر گئ ہے۔ اب نہیں کھایا جاۓ گا ۔ چاۓ نہ گر جاۓ۔ اوئ میں مر گئ۔ " فلک کہتی ہوئ کچن کی طرف بڑھ گئ۔
" اوہ بے چاری نے روٹی بھی پوری نہیں کھائ۔"
سسر جی افسوس سے بولے۔
میں نے فلک کی تیسری روٹی کی " بقایا جات" پر ایک نظر ڈالی۔ پھر دوسری نظر ڈالی ۔ اپنی پہلی روٹی پر جو کہ اب بھی آدھی باقی تھی۔ مگر اب میری بھوک مر چکی تھی ۔ کیونکہ مجھے پتا چل گیا تھا کہ فلک بہت کھاتی ہے اور پھر بھی اسمارٹ رہتی ہے۔
فلک پانچ سال میں تین عدد بچوں کی والدہ بن چکی تھی' جبکہ میں شادی کے سات سال بعد بھی وہی شروع کے جڑواں بچوں پر صبر شکر کر کے بیٹھی تھی۔ اپنے جڑواں بچوں کی پیداؑلش کے بعد مزید بچے پالنے کی ہمت ہم دونوں میاں ' بیوی میں نہ تھی۔ دونوں کو دن میں ' میں سنبھالتی جبکہ رات کو عاشر سنبھالتے تھے۔
میری نیند میری کمزوری تھی ۔ میرے دونوں بچے اب چھ سال کے ہو گۓ تھے۔ اس لیے فی الحال اس معاملے میں فلک کی برابری کر ہی سکتی تھی۔ اس سے پہلے کے فلک مزید بچوں کی پیداؑلیش پر غور کرے ' بلکہ وہ تو شاید بغیر غور کیے بچوں کی آمد پر یقین رکھتی تھی شاید۔۔۔۔
" اجی سنتے ہیں۔" میں نے بہت پیار سے عاشر کے کندھے پر ھاتھ رکھا۔
" پچھلے آٹھ سالوں سے آپ ہی کی سن رہے ہیں ایشل جان اور ساری زندگی بخوشی آپ کی سننے کے لیے دل و جان سے راضی ہیں۔" عاشر نے بہت پیار سے جواب دیا' میں نے بھی موقع غنیمت جانا۔