" کب سے ہے ....؟ " وہ قریب ہوا تو قدسیہ پرے ہٹ گئی . پیچھے کو سرکنے لگی .نہیں چاہتی تھی کہ وہ بھی اس طرح ڈر جاۓ جس طرح وہ ہمت رکھنے کے باوجود بھی نہیں دیکھ سکتی تھی .
" دو ماہ سے ...." اس نے ایک مہینہ مزید کم بتایا .
" اور تم مجھے اب بتا رہی ہو ..." وہ تیز لہجے میں بولا ....توقف کیا .... خود ہی نرم ہوا ." ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں ؟"
" جی ....!"
" کیا کہا اس نے ....؟"
" احتیاط کرنے کو کہا تھا اور یہ بھی کہ ایک سے ڈیڑھ مہینے کا وقت لگے گا اسے جانے میں ...."
" چلو ٹھیک ہے .... پریشان نہ ہونا ....ٹھیک ہو جاۓ گی خود ہی ...." شیراز نے پیار اور ہمدردی سے کہا تھا .... قدسیہ کو تھوڑی تسلی ہوئی .
لیکن وہ جو اسے پریشان نہ ہونے کا کہہ رہا تھا ، رات کو نجانے کیوں خود کوفت کا شکار ہو گیا . سارا پیار بھاپ بن کر کچھ اس طرح اڑا کہ نہ تو پھر بادل بن کر برس سکا اور نہ ہی فضا کی شبنم کی طرح گر سکا . خاموشی کا ایک لمبا سفر تھا جس میں ست رنگی کانچ دھڑا دھڑ ٹوٹے. محبت کو نہ ہوش آیا نہ دم . اور جلنے کی بو پورے کمرے میں پھیل گئی . ساری رات قدسیہ خاموشی سے اپنے ہی آنسو پیتی رہی . اگلے دن اس نے ڈاکٹر بدل دیا .
" مجھے حیرت ہے آپ پر ....پڑھی لکھی لگتی ہیں پھر ایسی غلطی کیسے کی آپ نے .... ایلوپیتھک دوائیوں سے ہی تو آپ کو یا الرجی ہوئی ہے اور آپ وہی دوائیاں کھا کر آپ علاج کرتی رہیں .... بھئی حیرت ہے ...." موٹی توند والے ہومیوپیتھک ڈاکٹر نے ہنس کر کہا تھا " سورائی سس کا علاج تو ہے ہی ہومیوپیتھک میں .... میں تو اب تک نوے کامیاب کیس کر چکا ہوں . پچاس لڑکے اور چالیس لڑکیاں ....بس علاج ذرا مہنگا اور صبر آزما ہے ."
پیسوں کی قدسیہ کو کمی نہ تھی اور صبر کو .... کل رات سے اس نے اپنا شعار بنا لیا تھا .
" میں نے اپنے دوست سے بات کی تھی ... وہ کہتا ہے کہ سورائی سس کا علاج ہے ہی نہیں .... چاہے جو بھی کر لو ، یہ زندگی بھر نہیں جاتی ..." شیراز نے کہا تو وہ جو گرم چاۓ بنا رہی تھی ، برف کی طرح سن ہو گئی .ایک دو ڈاکٹرز نے اسے خود یہ ہی بات کہی تھی اور اس بات کو وہ اپنی ذات سے بھی چھپا کر رکھنا چاہتی تھی .
" پرانی باتیں ہیں یہ شیراز ....!" اس نے ہکلاتے ہوئے کہا ." ڈاکٹر نے بہت امید دلائی ہے مجھے ."
" میں کل چلوں گا ڈاکٹر کے پاس ..." قدسیہ سمجھ رہی تھی کہ شیراز اس کی بیماری کے بارے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہے لیکن ....
کاش یہ کل آتا ہی نہ ....ڈاکٹر کے کلینک میں بیٹھی وہ یہی سوچتی رہی .
" سورائی سس کی صرف ایک دو .... صرف ایک دو خال خال اقسام ایسی ہیں جو چھوت کے زمرے میں آتی ہیں . لیکن مس قدسیہ کی سورائی سس کسی صورت اس اقسام میں سے نہیں ہے ...." جتنی دیر گفتگو ہوتی رہی قدسیہ بانک سے کٹے گنے کی طرح کٹ کٹ کر چھوٹے چھوٹے حصوں میں بکھرتی رہی .