مستول ہی ٹوٹ جاۓ تو نا خدا کس بات پر زعم کرے پھر... اس توڑ پھوڑ کی شروعات ایک برچھی سے ہوئی تھی ... ٹھیک دو سال پہلے .
پنکی کی پیدائش پر نجانے کس کس دوا کا کیسا کیسا ری ایکشن ہوا کہ قدسیہ کی کمر پر ایک بڑا سا سرخ سا نشان نمودار ہو گیا . پہلے پہل تو وہ نظر انداز کرتی رہی . جیسا کہ ہر کوئی ہی کرتا ہے . الرجی کی گولیاں کھا کر خود ہی اپنا علاج کرتی رہی . لیکن جب گول نشان کسی شگاف کی طرح بڑھتا ہی گیا تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی .
" آپکو سورائی سس ہو گئی ہے ." با رعب ڈاکٹر نے سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد کہا . قدسیہ یہ نام پہلی مرتبہ سن رہی تھی .
" وہ کیا ہوتی ہے ڈاکٹر صاحب....؟"
" جلد کی ایک بیماری .... جس میں جلد خشک ہو کر چھلکوں کی شکل میں اترتی ہے .... ہماری جلد کی سات تہیں ہوتی ہیں اور ساتوں تہیں اس بیماری میں بہت کمزور ہو جاتی ہیں ."
" یہ ٹھیک تو ہو جاۓ گی نا ڈاکٹر صاحب ....؟اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ' سیدھا اپنی فکر کا حل پوچھ لیا .
" ان شا الله کیوں نہیں ... آپکو بس احتیاط کرنی ہو گی ... اور دوائیوں پر مکمل توجہ دینی ہو گی ."
اس نے دونوں چیزوں پر فوکس کیے رکھا تھا . یہ احتیاط کیا کم تھی کہ شیراز اس بات سے مہینوں لا علم رہا تھا . لیکن نجانے کیا ہوا ، نیل کا ایک قطرہ پورے پانی کو نیلا کرنے لگا . یہ قطرہ تو اب کنویں میں گر جاتا تو اسے بھی نیلو نیل کر دیتا . قدسیہ کا بھی تن من دھن سب نیلو نیل ہونے لگا اور فرار کا راستہ اسے کہیں نظر نہیں آیا . اپنی کمر کو اب آئینے میں دیکھ کر اب وہ خود ڈرنے لگی تھی . بڑے بڑے سرخ اور کلیجی نشان ایسے براجمان تھے جیسے جلے ہوئے گلاب کسی نے وہاں چپکا دیے ہوں .
" یہ کیا ہے ؟"شیراز اسکی گردن دیکھ کر چونکا تھا ... گھبرایا بھی تھا ..... قدسیہ کا انجانے میں سر سے دوپٹہ اتر گیا تھا ورنہ وہ تو آج کل گھر میں بھی کس کر چادر لینے لگی تھی .
" یہ الرجی ہے شیراز ...." وہ بری طرح سٹپٹائی....جیسے اس کی کوئی چوری سب کے سامنے ہی تو آ گئی ہو .