" تو یہ وجہ تھی اس کے یہاں آنے کی ...."
ڈاکٹر نے شیراز سے علیحدگی میں بھی کچھ باتیں کی تھیں .
" ازدواجی زندگی میں سورائی سس کسی صورت رکاوٹ نہیں بنتی ہے .... آپکی بیوی برے فیز سے گزر رہی ہیں . ان کو آپکی محبت اور توجہ کی ضرورت ہے ... ان کے ساتھ پر خلوص رہئیے...یقین جانیے صرف تھوڑے عرصے کی بات ہے ."
شاید انہی باتوں کا اثر تھا کہ واپسی پر شیراز نے اسے ہوٹل سے ڈنر کروایا تھا . خاموشی کے انداز میں ڈوبی ہوئی بڑی بڑی تسلیاں دی تھیں . دونوں دنوں بعد بڑے خوشگوار انداز میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے . شاپنگ کے بعد پارک میں واک بھی کی اور گھر آ کر وہ شاید تھکن کے مارے جلدی سو گیا تھا یا اسے ڈاکٹر کی کسی بھی بات کا یقین نہیں آیا تھا . نجانے کس ہدایت کے باعث وہ قدسیہ سے دور دور رہنے لگا تھا . انتظار اور کوفت کا عالم اس گھر پر آ کر ٹھہر گیا . قدسیہ کے اندر اتنا اندھیرا جمع ہونے لگا کہ اسے اس اندھیرے کو مٹانے کے لئے سورج کی روشنی بھی کم پڑتی نظر آتی .
" بھئی ' کیا کہتا ہے وہ ڈاکٹر ....؟" شیراز نے ایک دن بڑے عاجز آ کر اس سے پوچھا تھا .
" وہ تو کہہ رہا تھا کہ صرف تھوڑی دیر کی بات ہے ... اور اب تو یہ زخموں کے نشان سامنے کی طرف بھی آنے لگے ہیں ...."
" علاج بہت سست روی سے ہوتا ہے اس کا شیراز .... ابھی مزید دن لگیں گے ."
" تمہیں پتا ہے ' دو ماہ ہو گئے ہیں ...." اس نے بتایا جس میں جتانے کا عنصر نمایاں تھا .
سورائی سس کو تو چھ ماہ ہو گئے تھے لیکن شیراز نے نجانے کس چیز کا حساب کتاب رکھا ہوا تھا . احساس جرم اور شرم سے قدسیہ پانی پانی ہو گئی . شیراز اپنے لہجے کی بیزاری اور جھنجھلاہٹ کو چھپانے کی اب کوشش بھی نہیں کرتا تھا .
اگلے دن قدسیہ نے تقریبا رو رو کر نمرہ کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا تھا .
" اوہ گاڑ آپی .... آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ." وہ چلائی . " خیر پریشان مت ہوں ... اتنی اتنی باتوں پر پریشان نہیں ہو جایا کرتے .... شکر ادا کریں کہ شیراز جیسا شوہر ہے آپکا ... کوئی اور ہوتا تو ....خیر ." قدسیہ نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کی .
" پہلے صرف کمر پر تھی نمرہ ... اب بازو اور ٹانگوں پر بھی آنے لگی ہے .... اور ....اور ." وہ رونے لگی .