" وہی تو میں سوچ رہی ہوں کہ یہ گھر کم مسجد زیادہ لگ رہا ہے ."
" اب بھلا یہ گھر تمہیں مسجد کیسے لگنے لگا ؟" عایشہ مسکرائی .
" دیکھو نا، ہر طرف خانہ کعبہ کی تصویریں ، کہیں سورتیں جبکہ میرے کمرے میں جب قدم رکھو گی تو تمہیں سب سے پہلے شاہ رخ خان نظر آئے گا ." ارم نے اٹھلائے ہوئے جواب دیا .
" یہ حضرت کون ہیں ؟" عایشہ نے تجسس سے پوچھا.
" لو بھئی! ارم اب ہماری عایشہ بی بی کو شاہ رخ خان کا پتا نہیں ." شازیہ نے افسوس سے کہا .
" بھئی میری معلومات میں یہ نام نہیں آیا ." عایشہ نے اپنی جان بخشی کرائی .
" جلدی کرو لڑکیو ، تمہارے ہارون ماموں کے فون پر فون آ رہے ہیں ." کلثوم پھپھو اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں .
" بس امی ایک منٹ ...."
" ہاے عایشہ پتر تو بھی کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہن لیتی . بھلا کیا مردہ روح بنی کھڑی ہے ."
" نہیں پھپھو .... میں ٹھیک ہوں ."
" دیکھو ! زبیر ہارن بجا رہا ہے بار بار چلو نکلی ."
عایشہ نے عبایا پہن کر حجاب کیا اور باہر کی طرف چل پڑی . خیر النسا نے جب بھتیجیوں کا حلیہ دیکھا تو سر شرم سے جھک گیا . وہ تو گاؤں کی سادگی اور حیا کے قصے سنایا کرتی تھیں . آج اپنی ہی بھتیجیوں کا حال دیکھا تو شرم سے جھکا سر اٹھایا نہ گیا .
ہارون صاحب لان میں ہی انتظار کا ایک ایک پل گن رہے تھے . آخر ان کی لاڈلی بہن " گڈی " جو آ رہی تھیں . گاڑی کی آواز سنتے ہی وہ گیٹ کی طرف لپکے . چوکیدار نے گیٹ کھول دیا . گاڑی " رشید اکبر لاج " میں داخل ہو چکی تھی . کلثوم بھابی سے ملی تو برسوں کی یادوں کے بادل ٹوٹ کر برسے . ام حبیبہ پھپھو سے ملیں پھر مہر النسا . سب کی آنکھیں محبت کی بارش میں بھیگ گئیں . طلحہ اور طہ بھی مہمانوں کی آمد کا سن کر باہر دوڑے چلے آئے. پھپھو نے دونوں بھتیجیوں کو کلیجے سے لگا کر چوم لیا . ایک عرصے سے بچھڑے خون کے رشتے ملے تو اک سکوں سا دل میں اتر گیا . طلحہ ! زبیر اور عامر کو لے کر مہمان خانے کی طرف چل پڑا. عامر کی ہر نظر عائشہ کا تعاقب کر رہی تھی مگر ابھی تک اوہ ناکام رہا .
رشید اکبر اور حسین اکبر دونوں بھائی تھے . رشید اکبر " بڑا بھائی " تھا اور اس کے چار بچے تھے . ہارون رشید اور پھر زنیب فاطمہ اور پھر مامون رشید اور سب کی لاڈلی اور چھوٹی بہن گڈی ، حسین اکبر چھوٹا بھائی تھا اور اس کے پانچ بچے تھے .
سب سے بڑا بیٹا جمال حسین پھر جلال حسین اور پھر تین بیٹیاں مہر النسا ، خیر النسا اور سب سے چوٹی امیر النسا .
دونوں بھائیوں میں گہری محبت ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے بچوں کی مرضی جانے بغیر ہی ان کی شادیاں کر دیں .
بعد ازاں رشید اکبر اور حسین اکبر کی رحلت کے بعد زمینوں کے بٹوارے پر ایسی " تو تو میں میں " ہوئی کہ بات کورٹ کچہری تک پہنچ گئی ، آخر کار ہارون اور مامون کے حصے میں جو زمینیں آئیں انہوں نے وہ بیچ کر ڈیرہ اسماعیل خان چھوڑ کر لاہور میں رہائش اختیار کر لی . امیر النسا کی شادی اپنے ماموں کے لڑکے حیدر علی سے کر دی گئی . امیر النسا نے ایک بچی کو جنم دیا اور خود ابدی نیند سو گئیں . اس طرح اس کی بیٹی رابعہ اپنے ماموں اور ممانی کے زیر سایہ پلنے لگی . ہارون رشید اور مامون رشید کا دل گاؤں سے ایسا کھٹا ہوا کہ دوبارہ مڑ کر نہ دیکھا . البتہ عورتوں اور بچوں پر پابندی نہ تھی مگر وہ بھی کسی نہ کسی خاص موقع پر ہی آتے جاتے ورنہ " سال پر سال " بیت جاتے نہ کوئی خیر ، نہ کوئی خبر . اب جبکہ موبائل کی سہولت ہوئی تو اب نہ صرف بچوں کی دوستیاں بڑھیں بلکہ حال و احوال کی تہذیب کو گوش گزار ا جاتا . ہارون اور مامون نے اپنے گاؤں کی تہذیب کو لاہور جیسے شہر میں بھی قائم رکھا . مگر اپنی بہنوں کے بچوں کا حال دیکھ کر انھیں دلی صدمہ ہوا . اس مرتبہ ان کی بہن زینب کے دوسرے بیٹے جنید کی شادی تھی جس کا دعوت نامہ دینے ان کی چھوٹی بہن کلثوم آئی ہوئی تھیں . باقی سب نے تو معذرت کر لی . مگر عایشہ اور حبیبہ کے انکار پر کلثوم نے ایک نہ سنی اور بھائیوں سے " صاف صاف " کہہ دیا کہ میں دونوں بھتیجیوں کو ساتھ لے کر جاؤں گی آخر کو ان کے ماموں کے لڑکے کی شادی ہے . گھر میں بچیوں کو قیدی بنا کر رکھ دیا ہے . تسبیح ، مصلے اور نماز کے علاوہ تو انھیں کچھ پتا ہی نہیں . بس میں کہہ دیتی ہوں ، گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر ہی واپس بھیجوں گی . خیر النسا اور مہر النسا کو تو کوئی حرج نہ تھا . البتہ ہارون اور مامون نہیں ماں رہے تھے . آخر کار وہ بھی اپنی لاڈلی بہن کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے .