SIZE
5 / 14

" " امی پلیز ." عایشہ التجا کرتے ہوئے بولی .

" خدا کے لئے عایشہ! کبھی تو گھر سے باہر نکلو ، دنیا دیکھو ، گھر مدرسہ اور گھر .... یہ کوئی زندگی ہے ."

" امی پتا نہیں وہاں کا ماحول ...."

" تمہیں ماحول وہاں جا کر بدلنا ہے ." خیر النسا نے بات کاٹتے ہوئے کہا . ' اب جلدی سے پیکنگ مکمل کرو ، صبح تڑکے تڑکے نکلنا ہے ."

عایشہ بے دلی سے پیکنگ کرنے میں مصروف ہو گئی .

تقریبا چھ گھنٹے کے بعد وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپو اسٹینڈ پر اترے . جمشید کو اطلاع مل چکی تھی اس لئے وہ گاڑی لے کر پہلے سے موجود تھا . ڈیرہ شہر سے گاؤں زیادہ دور نہیں تھا . تقریبا آدھے گھنٹے میں وہ گاؤں کی حدود میں داخل ہو گئے . عایشہ اور حبیبہ دونوں حیرانی سے گاؤں کا نظارہ کر رہی تھیں . گاڑی اب بہت بڑے پھاٹک کے سامنے رکی ، ایک دو ہارن بجانے پر گیٹ کھول دیا گیا . گاڑی گارے مٹی سے بنے ہوئے ایک چھتر کے نیچے کھڑی کر دی گئی . عایشہ اور حبیبہ کے آنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی . کچھ ہی دیر میں میلے کا سا سماں بندھ گیا . پھپھو زینب دوڑتی ہوئی آئیں " ہاے میڈے بھتریجیاں آوڑین" ( ہاے میری بھتیجیاں آ گئی ہیں ) بس پھر کیا تھا کوئی چاچی تھی ، کوئی مامی تھی ، کوئی پھپھی تھی ، کوئی کیا ....؟ گلے ملتے ملتے عایشہ اور حبیبہ کا تو ستیاناس ہو گیا . اسی اثنا میں ایک با رعب آواز گونجی .

" اب کچھ سانس بھی لینے دو گے یا بے چاروں کو گلے لگا لگا کر مار دو گے ." یہ آواز عامر کی تھی جو نجانے کب سے عایشہ کو گھور رہا تھا .

پھپھو زینب کو اب گرمی اور سفر کی تھکاوٹ کا احساس ہوا تو اس نے اپنی ملازمہ " وسی " کو لسی لانے کا حکم صادر کیا . عایشہ کی نظر دور کھڑی من موہنی سی لڑکی پر پڑی جو باقی سب سے مختلف اور سادہ سادہ سی تھی . وہ ایک درخت سے ٹیک لگاۓ ملنے ملانے کا تماشا دیکھ رہی تھی .

عایشہ نے نظر گھمائی لیکن اب وہ لڑکی اسے وہاں نظر نہیں آئی.

" زینت او زینت کتھان مر گئیں، تندور بال ، روٹی پکا ، بڑی بھک لگی ہے " پھپھو کلثوم نے کہا .بیرونی پھاٹک سے اندر داخل ہوتے ہی بڑا سا چھپر تھا . جس میں دو عدد گاڑیاں ایک ٹریکٹر اور دوسرا کھیتی باڑی کا سامان رکھا ہوا تھا . ایک طرف کیکر ، ٹاہلی، بیری اور شہتوت کے درخت تھے ان کے نیچے آدمی کے قد برابر چھوٹی سی چار دیواری میں ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا . درخت پر دو جھولے ڈلے ہوئے تھے . ایک طرف مال مویشیوں کے لیے چھپرڈلا ہوا تھا . کچھ پرانے وقتوں کے کچے کوٹھے تھے اور ایک طرف ذرا جدید قسم کے کمرے بنے ہوئے تھے . حویلی ایک اندازے کے مطابق آٹھ ، دس کنال رقبہ پر محیط ہو گی . اچانک عایشہ کی نظر اس لڑکی پر پڑی.

" شازیہ ! یہ کون ہے .....؟" عایشہ نے پوچھا.

" یہ رابعہ ہے ، تیری چھوٹی خالہ امیر النسا کی بیٹی."

" مگر یہ ہمیں ملنے کیوں نہیں آئی؟" عایشہ نے حیرانی سے پوچھا.

" اس کا رشتہ لوٹے ، تسبیح اور مصلے سے ہے . الله لوک ہے . نہ کسی سے بولتی ہے نہ ہی کچھ کہتی ہے . اوپر سے ابا نے عامر کے گلے ڈال دی ہے یہ الله میاں کی گاۓ." شازیہ جھلا کر بولی .

عایشہ کو نجانے کیوں ربیع پر ترس آیا . تندور جل چکا تھا . زینت اور وسائی روٹیاں لگا رہی تو تھیں ، عایشہ اور حبیبہ یہ دلچسپ منظر دیکھ رہی تھیں .

" آنٹی ! لائٹ آ گئی ہے .عروسہ یہاں تو بہت گرمی ہے ." پھپھو کلثوم نے کہا .

" جی پھپھو ! واقعی گرمی بہت زیادہ تھی ." سب اٹھ کر اندر جانے لگے . سب کمرے کی طرف چل پڑے تو عایشہ ، ربیع کی طرف چل پڑی. اسے نجانے کیوں رابعہ کی ذات میں کچھ ٹوٹا سا محسوس ہوا .