عایشہ اب کچن کی طرف روانہ ہوئی ، کمرے کا دروازہ کھولا . دروازہ جیسے ہی کھولا کوئی چیز دھم سے سر پر ان گری . عایشہ کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی . اس نے جلدی سے دوپٹہ اتارا. دوپٹے کو جھاڑا . ایک چھپکلی زمین پر گری اور دیوار پر چڑھ گئی . عایشہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا . وہ چند لمحے خود کو سنبھالتی رہی . وہ آنکھیں بند کیے تلاوت کی آواز سن رہا تھا . اچانک آواز بند ہو گئی اور دروازہ کھلا اور ساتھ ہی ایک ہلکی سی چیخ سنائی دی . اس نے فورا آنکھیں کھولی اور بند دروازے کی طرف دیکھا انتظار ختم ہوا . وہ ہوش ربا سامنے تھی . شہزادہ پتھر کا بت بن گیا . آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں. پلکیں ٹھہر گئیں، لہو جم گیا ، دھڑکنیں تھم گئیں اور سانسیں رک گئیں. اف خدا ! یہ لڑکی ہے یا کوئی حور . سیاہ گھٹاؤں جیسے کمر تک لمبے بال ، غزالیں آنکھیں ، مر مر سے تراشے ہوئے خدوخال ، چاندنی سے دھلا ہوا پر نور چہرہ . اتنا صاف و شفاف جیسے کسی وادی میں بہتا جھرنا. سفید لباس میں کوئی پری لگ رہی تھی . عامر کے دل میں عایشہ کے حسن کی شمع جل گئی تو رابعہ کا عکس دھندلانے لگا اور وہ آنے والے دنوں کی پلاننگ میں مصروف ہو گیا .
امی جب بھی ڈیرہ اسماعیل خان کا نام لیتیں تو بڑے ادب سے لیتیں .
" بیٹا لاہور میں بڑی بے حیائی ہے . بڑے چھوٹے کا احترام نہیں . نہ کوئی پردہ ہے نہ شرم و حیا . اپنے ڈیرے کا تو ماحول ہی بہت سکون دیتا ہے . چھوٹے بڑوں سے ادب سے بات کرتے ہیں ، بڑے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں . لڑکیاں بھائیوں کے سامنے ننگے سر نہیں گھومتی . باہر جائیں تو کوئی نہ کوئی گھر کا فرد مثلا باپ ، بھائی یا کوئی نانی ، دادی وغیرہ ساتھ جاۓ گی . وہاں زندگی بہت خوبصورت اور ٹھہر ٹھہر کر چلتی ہے جیسے گاؤں کی کوئی گوری پانی کا مٹکا اٹھائے ا ڑے ترچھے رستوں سے دھیرے دھیرے چل رہی ہو . مگر یہاں کی زندگی ....؟ آنکھ جھپکے تو شام . اتنی تیز کہ جس کو دیکھو میدان جنگ کا گھوڑا بنا ہوا ہے . امی جمشید بھائی کی شادی پر گئی تھیں اور ان کی شادی کو تقریبا دس بارہ سال گزر چکے ہیں . اس کے بعد امی کبھی گاؤں نہیں گئیں اور لگتا ہے کہ اب وہ گاؤں گاؤں نہیں رہا . فیشن کی آگ نے ہمارے گاؤں کے تہذیب و تمدن کے باغ بھی جلا دیے ہیں ." ام عایشہ کمرے میں داخل ہوئی تو شازیہ اور ارم تیاری میں مگن تھیں .
" میں مست کڑی تو بھی مست مست منڈا ہے
میں بھی حسین تو بھی زبردست منڈا ہے ."
ارم بالوں میں برش کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ گانا بھی کانوں میں انڈیل رہی تھی . کیونکہ ایسی آواز میں تو گنگنایا نہیں جاتا . عایشہ کو امی کی کی بتائی ہوئی ساری کہانیاں جو گاؤں کے متعلق تھیں اب جھوٹ لگ رہی تھیں . وہ مسلسل شازیہ اور ارم کو تکے جا رہی تھی .
دونوں نے باریک جارجٹ کے بغیر آستین کے سوٹ پہنے ہوئے تھے . شولڈر کٹ بال ، کلر کیے ہوئے اور چہرے مسلسل فیشل ، تھریڈنگ ، پلکنگ اور بلیچ کی وجہ سے رف ہو چکے تھے . آج مہرالنسا خالہ کے گھر دعوت تھی اس لئے وہ تیار ہو رہی تھیں اور عایشہ سوچوں میں گم تھی کہ " اگر یہ اس حال میں بابا جانی کے سامنے گئیں تو کیا ہو گا ؟"
" بھئی عایشہ ! لگتا نہیں کہ تم لاہور میں رہتی ہو ."
" کیوں ؟ ارم ! کیا بات ہے کہ میں تمہیں لاہور لکی رہائشی نہیں لگتی ."
" بھئی سنا تھا کہ لاہوری بہت ایڈوانس ہوتے ہیں مگر تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہے .... لاہور کی سوئی 1947 پر ہی رک گئی ہے اور آج ہم مس فاطمہ جناح سے مل رہے ہیں ." شازیہ نے کہا تو عایشہ مسکرا دی .
" بھئی کس چیز نے تھمیں تاریخ میں پلٹ دیا ہے ؟"
" صبح سے خوار ہو گئے ہیں تمہارے کمرے میں نہ تو کوئی چیز میک اپ کی ملی ، نہ کوئی ٹی وی نہ ریکارڈ مجبورا مجھے ارم کی پھٹی ہوئی آواز سنی پڑ رہی تھی ." شازیہ بولی .
" دیکھیں ، اصل میں فرسٹ ٹائم آپ یہاں آئی ہیں اس لئے آپ کو بتاتی چلوں کہ میں فیشن وغیرہ میں انٹرسٹ نہیں رکھتی کیونکہ میں نے عالمہ کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور اب میں ایک دینی مدرسے میں " معلمہ" ہوں ."