" ہاے الله ، بھائی جان ." کلثوم سر پر دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے مامون صاحب سے ملنے کے لئے آگے بڑھی . برسوں کے بچھڑے ہوئے بھائی بہن مل رہے تھے . کلثوم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے .
" بھئی خیر انسا ، یہ دیہاتی لوگ کیا سلام د عا بھول گئے ہیں ؟" مامون اپنی لاڈلی بہن کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے اس لئے ان کو چھیڑ رہے تھے .
" " اور بھائی جان کیا لاہوریوں نے سلام کی جگہ کھانسنا شروع کر دیا ہے ." کلثوم بھی جھٹ سے بولی .
" بھئی یہ ہوئی نہ بات . کلثوم یہ میاں صاحب تو ایسے ہی میرے ساتھ ڈبا کرتے ہیں لیکن آج مزہ آ گیا . آج مخاطب بھی تو ان کا اپنا خون ہے ."
" بیگم ! یہ بات نہ کرو ، بھلا تم کیا غیر ہو تم بھی اپنا ہی خون ہو ."
" ہاں خیری ! یہ بات تو بھیا ٹھیک کہتے ہیں . خیر سے ایک نہ دو ، تین تین ، چار چار رشتے بنتے ہیں تم سے . اب دیکھ لو نہ چچا زاد ہو ، خالہ زاد ہو اور میری بہن سے بڑھ کر عزیز دوست رہی ہو اور پھر بھابی بھی بن گئی ."
" اب گڈی کیا ساری تاریخ سناؤ گی ." مامون صاحب بولے .
زبیر اپنے بزرگوں کی اس میٹھی میٹھی نوک جھونک سے محظوظ ہو رہا تھا .
" بیگم آج تو ناشتہ وہ سرائیکی کی مثال ہے نا. " گاوے ھڈ( گاۓ کے پاۓ) بن گیا کم از کم چاۓ ہی پلا دو . یا وہ بھی نہیں ملے گی ."
" آپ تو ہمیشہ چار بندے دیکھ کر میرا گلہ ہی کرتے ہیں ، زندگی گزر گئی کبھی آپ سے تعریف نہ سنی میں نے ."
" بھیا ! ایک منٹ میں پلاتی ہوں ." کلثوم نے چائے گرم کر کے کپ میں ڈالی اور مامون کے سامنے کپ رکھ دیا . چاۓ کا سپ لیتے ہوئے مامون کے منہ سے ٹھنڈی اہ خارج ہوئی .
ارے گڈی چاۓ کیا تم نے بنائی ہے ؟"
" بھیا ! اب خیر سے آپ جو لاہوری ہو گئے ہیں تو کیا یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ڈیرے وال کی تو کھوت بنی ہوئی ہے کہ " وہ کسی کے گھر میں مہمان جاۓ ، تو اسے میزبان اگر طرح طرح کے کھانے کھلا دے ، اور چاۓ کا نہ پوچھے تو سمجھو ساری محنت رائیگاں اور اگر جاتے ہی میزبان چاۓ پلا دے اور کسی چیز کا نہ پوچھے تو بلے بلے ہو گئی " میزبانی مکمل مہمان خوش ." اور آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم نے سب سے پہلے آتے ہی چاۓ بنائی اور پی لی ."
میں یہ تو نہیں کہ رہا بلکہ آج تو تم نے ایسی چاۓ بنائی ہے " قسم سے امی کی یاد آ گئی ."
" ہاں اسی لئے دوڑے چلے آتے ہیں . کبھی فرصت میل تو اس ماں کی قبر پر فاتحہ بھی پڑھ لیں ."
" تمہاری اکثریتی " رٹ " ہوتی ہے . تمہیں پتا بھی ہے کہ اب گاؤں جانا بہت مشکل ہے .... منافق لوگ ؟ بس رہنے دو میرے سامنے گاؤں کا نام نہ لیا کرو . دل کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں ." سب کے چہرے ایک دم سے بجھ گئے . زبیر سوچ رہا تھا کہ آخر وہ کون سا راز ہے جو امی ابو کے سینے میں دفن ہے . اور جس کی ہوا تک نئی نسل کو نہیں لگنے دی جاتی .بارہا پوچھنے کے باوجود ٹال دیا جاتا . زبیر سوچوں کے بھنور میں ڈوبا ہوا اپنے بزرگوں کے اترے ہوئے چہرے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا .
عایشہ نے قرآن پاک کا ایک پارہ پڑھا ، پڑھنے کے بعد اسے غلاف میں بند کر کے چوما ، باری باری دونوں آنکھوں سے لگایا اور پھر الماری میں رکھ دیا . عایشہ روزانہ صبح کی نماز پڑھ کر ایک پارہ پڑھتی اور پھر سیدھی کچن میں جاتی . وہ امی کی کچن میں مدد کرتی . اس نے کئی بار خیر النسا سے کہا " امی ! آپ ناشتہ مجھے بنانے دیا کریں مگر ان کی ایک ہی ضد ، بیٹا ! جب تک میں اپنے ہاتھ سے کام نہ کروں مجھے چین نہیں آتا ."