" جلدی شے ....." احمد بلال کی بے ساختگی پر میں اور عادل مسکرا اٹھے .
" لائن میں کھڑے ہو . سب لائن میں کھڑےہو ." شیراز مسلسل آواز لگا رہا تھا .
گرم گرم خانے کی اشتہا انگیز خوشبو چہار اطراف پھیلی تھی . لوگ بھوک سے بیتاب ہو رہے تھے . بچے بھی کھیل کود چھوڑ کر لائن میں کھڑے اپنی ماں اپنے باپ اور بھائی ، بہنوں کی ٹانگوں سے لپٹے کھڑے تھے . میں نسیم کے ساتھ تھا جو دیگ سے کھانا نکال نکال کر لوگوں کے برتنوں میں ڈال رہا تھا . میری نظر کھانا لینے والے لوگوں کے چمکتے چہروں پر تھی . مگر ایک چہرے پر میری نظر ٹھہر گئی . وہ آگے آئی اس نے ہاتھ میں ایک بڑی تھالی تھامی ہوئی تھی اور ابھی بھی اپنا منہ چادر سے ڈھانپ رکھا تھا . صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں . میں اس کے اس پاس احمد بلال کو تلاشنے لگا لیکن وہ کہیں نہیں تھا . اس نے تھالی نسیم کے آگے کی ، نسیم ابھی کھانا ڈال ہی رہا تھا کہ اس نے تھالی ہٹا لی تھوڑے چاول زمین پر گر گئے اور تھوڑے تھالی میں . میں نے چونک کے اس کا چہرہ دیکھا جس میں صرف آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں . آنسوؤں سے بھری آنکھیں . وہ پلٹی اور دوڑتی ہوئی خیموں کی طرف بھاگتی چلی گئی . نسیم بھی حیران پریشان اسے ہی دیکھنے لگا . میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ کر اسے باقی لوگوں کی طرف متوجہ کیا . وہ سر جھٹک کر پھر سے کام میں مصروف ہو گیا اور میرا ذھن ان آنکھوں میں الجھ گیا .
" میں یہاں پاس کی بستی میں رہتی ہوں . کچا مگر مکان اپنا ہے میرا . گھر والا ٹھیک سے کام نہیں کرتا . میں گھروں میں کپڑے برتن دھوتی ہوں . غریب لوگ ہیں ہم دو وقت کا کھانا یہاں سے لے جاتے ہیں تو کچھ بچت ہو جاتی ہے ."
میں ہاتھ میں چاولوں کا تھیلا لئے احمد بلال کے خیمے کی طرف جا رہا تھا ، جب قطار میں کھڑے لوگوں کی طرف سے سرگوشی میں ڈھلی یہ آواز مجھ تک پہنچی . میں ٹھٹھک گیا اور آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا . وہ مجھے نظر آ گئی . میلے سے کپڑوں میں درمیانی عمر کی سانولی سی عورت تھی .
" اور میں ہی نہیں میری بستی کے اور بھی بہت سے لوگ کھانا ملنے کے وقت یہاں آ جاتے ہیں . کرم ہے رب سوہنے کا یہ خیمہ بستی بنا کر اس نے ہمارے کھانے کا انتظام کر دیا ." وہ مزید کہہ رہی تھی .
میں اس عورت کے جملے پر لرز اٹھا . بے اختیار نظر آسمان کی طرف اٹھی اور یہ سوال میری روح کو کچوکے لگانے لگا .یہ کیسا گورکھ دھندہ ہے ؟ کسی کے لئے یہ خیمہ بستی باعث نعمت ہے اور کسی کے لئے باعث اذیت . تیری تو ہی جانے ." میں زیر لب بڑبڑاتا سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا .
" احمد بلال ." میں نے خیمے کے باہر سے ہی آواز دی . جواب خاموشی نے دیا . میں نے ایک دو بار آوازیں دیں تو وہ ہی عورت باہر نکلی ، اس نے وہی صبح والی چادر بالکل صبح والے انداز میں اوڑھ رکھی تھی . صرف آنکھیں عیاں تھیں . میرے ذھن میں جھماکا ہوا . یہ وہ آنکھیں نہیں تھیں جو کھانا لیتے وقت میں نے دیکھی تھیں .
" صاحب! وہ سو رہا ہے ، تم جاؤ یہاں سے ." اس نے تیزی سے کہا اور پلٹ گئی .
" بات سنیں ! یہ میں احمد کے لئے لایا تھا ." میں نے شاپر اس کی طرف بڑھایا .
" چاول ہیں !" اسکی سوالیہ نظروں کے جواب میں ، میں نے کہا .
" لیکن ہم لوگوں نے کھا لیا ہے صاحب ، تم یہ لے جاؤ اور جس کو ضرورت ہو اسے دے دو . " وہ عجیب سے لہجے میں کہہ کر جلدی سے اندر چلی گئی .
" میری بات تو سنیں ! یہ لیں ." ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ عورت دوبارہ پلٹی.
" تم کیوں اپنی اور میری جان کے دشمن ہو رہے ہو ، جاؤ یہاں سے ، میرا گھر والا اٹھ گیا تو تمہیں جان سے مار دے گا . جاؤ !" وہ بڑے ہی جارحانہ انداز میں کہہ کر اندر غائب ہو گئی اور میں کچھ اور الجھ گیا .