بچے کی بلکتی آواز پر میں نے سر گھمایا . میرے بائیں طرف بنے خیموں میں سے سامنے والے خیمے کا منظر نظر آ رہا تھا . وہ کوئی چار ، پانچ سال کا بچہ ہو گا . جو اپنی ماں سے خانے کی ضد کر رہا تھا . اس کے برابر میں بیٹھی اسکی ماں بالکل جامد تھی . ایک میلی سی چادر اوڑھے وہ یوں بیٹھی تھی جیسے کوئی مجسمہ ہو . اسکی آنکھوں کی پتلیوں میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی . بنا حرکت کیےاسکی نظریں کسی نادیدہ نقطے پر مرکوز تھیں . اسکی طرف چپ ، اسی کی طرح بے حرکت ، ایک دم مجھے یہ لگنے لگا جیسے وہ مر گئی ہو ، یوں ہی بیٹھے بیٹھے ، میں مضطرب ہو کر اٹھنے لگا تھا .
" اماں... اٹھ جا ناں... مجھے کھانا لا دے ." وہ بچہ پھر سلگنے لگا .
زمین پر دونوں پاؤں پسارے وہ بچہ جس کے ہاتھ پاؤں اور بال مٹی سے اٹے تھے . گریبان کے پہلے دو بٹن ٹوٹے ہوئے اسکی بے بسی کی کہانی سنا رہے تھے اور خشک گالوں پر آنسوؤں کے نشانات اس کے ساتھ سسک رہے تھے . میں اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا اور اسی بچے کو دیکھتے دیکھتے میں اس بچے کے ماضی میں جا پہنچا . کبھی یہ بھی تو اپنے گھر میں رہتا ہو گا . صاف ستھرا ، سکول جاتا ، نخرے کرتا ، اپنی ماں سے اپنے لاڈ اٹھواتا ہو گا .اپنے گھر کے صحن میں دوڑتا ہوا بچہ اور اس کے پیچھے پیچھے ہاتھ میں نوالہ لئے اس کی ماں .....
" آ جا میرا شیر پتر ! دیکھ کتنے مزے کی دہی ہے ، کھا لے شہزادے ."
پیار سے پچکارتی ماں .
" نہیں مجھے حلوہ کھانا ہے میں ، میں یہ نہیں کھاؤں گا . مجھے حلوہ کھانا ہے ."
بچہ ٹھنک کر کہتا ہو گا ، بھاگ کر چارپائی کے نیچے گھس جاتا ہو گا . اپنے تخیل کی وادی میں سیر کرتے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ چمکی اور آنکھوں کے گوشے گیلے ہو گئے .
" لا لا ....لا لا ....!" میں چونک اٹھا کسی نے بڑے زور سے میرا کاندھا ہلایا . میرے سامنے وہی بچہ کھڑا تھا . ننگے پاؤں آنکھوں میں بھوک اور ہونٹوں پر سسکی لئے . میرے متوجہ ہونے پر اسکی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اس کے پھولےپھولے گالوں پر لڑھکنے لگے . میں نے بے اختیار اسے اپنے سینے بھینچ لیا . نمی آنسو بن کر میری پلکوں پر آ ٹھہری .
" بوت بھوک لگی ہے ." رندھی سرگوشی میرے کانوں میں سرسرائی تو میں نے اسے خود سے الگ کیا ، اس کے آنسو پونچھے اور دانستہ مسکرایا .
" چلو ....!" میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور کھڑا ہو گیا .
کلائی الٹ کر گھڑی دیکھی تو کھانا ملنے میں ابھی وقت تھا ، میں اسے لئے اپنے کیمپ کی طرف بڑھنے لگا .
" نام کیا ہے تمہارا ؟" میں نے چلتے ہوئے پوچھا .
" احمد بلال ." بچے کی آواز میں بشاشت آ گئی تھی .
" بہت پیرا نام ہے ، بالکل تمہاری طرح ." میں نے اس کے رخساروں کو چوما .
میں کیمپ میں داخل ہوا تو وہاں بیٹھا عادل میرے نزدیک آ گیا . میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا .
" میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا . خاور بھائی کی کال آئی تھی . وہ امدادی سامان کا ٹرک لے کر پہنچنے والے ہیں ، یہ کون ہیں ؟" عادل نے کہتے ہوئے احمد بلال کے سر پر ہاتھ پھیرا .
" اسے بسکٹ اور جوس نکال کر دو ." میں نے عادل سے کہا .