رات کا پرہول سناٹا چہار سو اپنے پنجے گاڑ چکا تھا . تیرھویں شب کا چاند آسمان کی وسعتوں میں ڈولتا محو سفر تھا . میں خیمہ بستی کے ساتھ بیٹھا تقریبا اختتام پر خاور کے ساتھ بیٹھا شبنم کی نمی اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا .
" قیامت کی گھڑی ہے اور ہم اپنے مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں . کوئی کسی کے بارے میں نہیں سوچتا ، کسی کو ، کسی کی پروا نہیں ہے . ہماری بلا سے سب جہنم میں جائیں ." خاور کی آواز سناٹے کی چادر چیرتی ہوئی رات کے دامن میں گونجی . میں مبہم مسکرا دیا . وہ خاصا برہم تھا .
" کمال ہے تمہیں ہنسی آ رہی ہے میری بات پر ." وہ چڑ گیا .
" خاور ...." میں نے اپنا دائیاں بازو اس کے شانوں پر دراز کیا .
" مجھے دو سوالوں کے جواب دو ." وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا .
" کیا تم رزق بانٹنے پر قادر ہو ؟" وہ مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میں نے کوئی احمقانہ سوال کیا ہے .
" میری بات کا جواب دو ." میں نے اپنی بات پر زور دیا .
" ظاہر سی بات ہے نہیں ! میں کیا میری ذات کیا ." اس نے کہا ، میں پھر مسکرایا .
" اب یہ بتاؤ کیا تم نے سیلاب متاثرین کی کسی طرح کی حق تلفی کی ہے ." میں نے " تم نے " پر زور دیا . وہ مجھے الجھ کردیکھنے لگا .
' میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ خلوص کے جتنے سکے میرے کاسہ قلب میں تھے سب اپنے ہم وطنوں کے پھیلے دامن میں ڈال دوں ." شدت جذبات سے اسکی آواز بوجھل ہو گئی .
" تب ساری منفی سوچوں کی گرد اپنے ذھن سے جھاڑ دو ." میں نے نرمی سے اسکا کاندھا تھپتھپایا . وہ یوں مجھے دیکھنے لگا جیسے مجھ سے پہلے اور دوسرے سوال کا تعلق پوچھ رہا ہو .
" دیکھو ! بانٹنے والی ذات الله کی ہے وہ جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے . ہم اس کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے اور جو اس سے لینے والے ہیں یہ بھی ان پر منحصر ہے کہ وہ جیسے چاہے لیں . ہمیں تو اپنی نیتوں کا حساب دینا ہے . ہم کو اپنے نامہ اعمال کی پاکیزگی درکار ہے . اگر کوئی یہاں سے آ کر سیلاب متاثرین کے " نوالوں " میں سے چند " نوالے " لے جاتا ہے تو ہم اسے روکنے والے کون ہوتے ہیں . یہ رزق و نعمت ہماری ملکیت نہیں اور جس کی ہے اس سے بڑی نوازنے والی کوئی ذات نہیں . بس اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کی بات ہے . آج اگر وہ کسی کی حق تلفی کرتے ہیں تو یہ ان کا اور ان کے پروردگار کا معاملہ ہے . ہم صرف اپنے عمل کے لئے جوابدہ ہیں . کسی نے کیا کہا ؟ اور کیوں کہا ؟ اس کا ہمیں جواب ....." اسی وقت کسی کے چیخنے کی آواز آئی.
" آ ..... آ ..... وہ بچاؤ ، بچاؤ .... وہ مجھے ...." میں اور خاور چونک اٹھے . عادل بھاگتا ہوا ہم تک پہنچا . ہم خیمہ بستی کے آخری سرے پر بیٹھے تھے جس سے پچھلی کچی بستی قریب تھی اور عادل اس سمت سے ہی آ رہا تھا . اس کی قمیض پسینے سے شرابور تھی وہ شاید کافی دور سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا . ہم دونوں کھڑے ہو گئے . میں نے خاور سے پانی لانے کو کہا اور عادل کو اسی پتھر پر بٹھا دیا جس پر ابھی کچھ دیر قبل ہم دونوں بیٹھے تھے .
خاور نے اسے پانی پلایا تو اسکا تنفس بحال ہوا . میں نے چند لمحے خاور کو کچھ نہ پوچھنے کا اشارہ کیا . وہ پانی پی کر اب گہرے سانس لے رہا تھا . میں نے اسکی پیٹھ سہلائی تو وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا .