SIZE
4 / 9

" سرکار ! یہ دربار عشق ہے ' یہاں برابری کیسی . آپ میرے لئے بہت اعلی ' بہت بلند ہیں . مجھے اپنا مرید بنا لیں ."

میرے تو پسینے چھوٹ گئے عشق کا اتنا واضح اظہار ... مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا. وہ خوف تھا یا مروت ' میں سمجھ نہ سکی .

وہ بہت اچھا ادیب تھا . مجھ سے سینئر تھا . میں شروع سے ہی اسے شوق سے پڑھتی تھی ' مگر ایک دن وہ مجھ سے یوں کھلم کھلا اظہار محبت کر لے گا . یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا .

شاید میری کمزوری تھی کہ میں اسے جھڑک نہ سکی یا شاید اس کی شخصیت اور طرز تحریر بے حد پسند تھا ' اس لئے .....

میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ مجھے اسے سختی سے روک دینا چاہیے .

مگر میرے دل نے ایسا نہ کرنے دیا . دل ہی تو ہے جو آدمی کو رسوا کر دیتا ہے . گھر اجاڑ دیتا ہے ' پاگل کر دیتا ہے اور ہمارے جیسے حساس لوگ دل کا ہرغلط فتویٰ بھی مان لیتے ہیں . دل مفتی نے طوطا چشمی اختیار کی تو اس کے حوصلے اور بڑھ گئے .

اب روزانہ اظہار محبت کے پیغام موصول ہوتے . میری تحریریں قصہ پارینا بن گئیں. میری شخصیت ' ذات ' پسند ' نا پسند کے گرد مطوف پیغامات نے مجھے اس دلدل میں پھنسا ہی دیا .

انسان محبت سے کیوں ہار جاتا ہے . یہ اس کی کمزوری ہے یا محبت ہی کوئی جادوئی اثر رکھتی ہے . اس کے مسلسل تکراری پیغامات نے میرے اوسان خطا کر دیے.

اور ایک دن اسکی کال آ گئی . یہ تیرا ماہ میں اسکی پہلی کال تھی . میرے سیل فون کی اسکرین پر " ساحر سمیع" کا نام جگمگا رہا تھا اور ساتھ میں اسکی نئی آنے والی کتاب پر چھپی تصویر ' جو میں نے غیر ارادی طور پر اپنے سیل فون کے کیمرے سے کھنچ کر اس کے نمبر پہ لگا دی تھی .

میں شش و پنج میں پڑ گئی . اسکی کال ریسیو کروں کہ نہیں . جب تیسری بار کال آئی تو میں نے دھڑکتے دل سے ریسیو کی .

" سحر سرور ....!"

مجھے اسکا اس طرح سے پکارنا عجیب سا لگا .

" جی ؟"

" تمہارا نام لیتے ہی میرے قلب و جاں پر سرور طاری ہو جاتا ہے . "

اس نے میری حیرت بھانپ کر تصحیح کی . میں خاموش رہی .

" سنو !"

" جی ! سن ... رہی ... ہوں ." لفظ چار نکلے ' مگر کتنے اسکی سماعت تک پہنچے اندازہ نہ کر سکی .

" محبت سے فرار ممکن نہیں ہے . یہ بڑی ظالم چیز ہے . اس کے سامنے ہتھیار ڈال دو . اس کی محکوم بن جاؤ . یہ تمہیں حاکم بنا دے گی ."