میں نے رنگ و روغن کے ساتھ ساتھ چھت کی مرمت اور آرائش کا کام بھی چھیڑدیا . ر شام جب میں کام سے تھک جاتا تو اپنے لئے کھانا بھی خود ہی تیار کر لیتا اور کچھ اس کے لئے بھی بچا جاتا .
وہ گہری شام کو جب تھکی ہاری واپس لوٹتی تو میں اسے مخاطب کر کے کہتا ." عالیہ! کھانا تیار ہے ' کھا لینا ." وہ بھوکی شیرنی کی طرح بپھری نظروں سے مجھے دیکھتی اور پیر پٹختے ہوئے ہوئے اندر چلی جاتی . میں جانتا تھا کہ اندر جا کر وہ وہی کھانا بڑے آرام سے کھا لیا کرتی تھی .
میں نے اس کے گھر کے لاؤنج میں روشن صبح کا ایک تازہ دم کرنے والا منظر پینٹ کیا اور اس کے بنگلے کے چھوٹے سے باغیچے میں رنگا رنگ پھولوں اور تازہ سبزیوں کے پودے کاشت کر دیے .دروازے کے ساتھ ڈاکٹر کی تختی اور مدھم سروں کی گھنٹی نصب کی پھر " کچھ عرصے کے لئے " اس کا گھر چھوڑ دیا .
عالیہ نے اسپتال کے عملے کے ذریعے مجھے تلاشنا چاہا ' لیکن کوئی میرے نام کے کسی مزدور کو نہیں جانتا تھا .
اسے میرے ہاتھ کے ذائقے کی عادت سی پڑ گئی تھی اور میں جو دن بھر اس کے گھر میں رنگ بھرتا رہتا تھا ' وہ اسکی زندگی میں گھلتے رہتے تھے . میری موجودگی نے اس کے گرد تحفظ کا ایک ہلکا سا حصار تان دیا تھا جو میرے چلے جانے کے بعد بکھرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا .
وہ بہت باقاعدگی سے میرے لگائے ہوئے پھولوں کے پودوں کو پانی دیتی اور کیاریاں صاف کرتی . جب پھول کھلنے لگے تو اس نے گلدان میں سجاۓ اور اپنے اور اپنے سرہانے بھی رکھنے شروع کر دیے.