پھر وہ گنگنانے لگیں ایک لوری ...ایک د عا ... یا پھر ایک خواہش جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا .
" اے میری ننھی کرن میری د عا ہے میرے دل سے نکلتی ہوئیایک ہی خواہش ... تو بھی ایک دن اس درخت کی طرح ایک مکمل اور صحت مند وجود بن جاۓ . ایک ایسا وجود جو نسل انسانی کی حفاظت کرے قبل فخر ہستی بنے .جس طرح یہ درخت اس دھرتی ماں کا سایہ بن کر نسل انسانی کا حق ادا کرتا ہے . ایسے ہی جیسے ایک بیج سے سو دانے نکلتے ہیں اسی طرح تیرے وجود سے ہزاروں انسان فائدہ اٹھائیں . اے میری ننھی کرن تیرے وجود سے بہت ساری روشنی اس دنیا میں پھیل جاۓ . تیری خوشبو سے فضا معطر ہو جاۓ .میری د عا ہے خدا سے جس نے تجھے اور اس اجہاں کو بنایا . میں تیری پرورش ایک عبادت کی طرح کر پاؤں ."
مما لوری سناتے ، سناتے سو گئیں اور زندگی کے پانچ خوبصورت سال بینک اکاونٹ کی طرح جمع ہو گئے. چھوٹے سے درخت نے تناور درخت کی شکل اختیار کر لی اب ننھی کرن بھی سکول جانے لگی تھی . یہ ماہ و سال کرن کے اس درخت کے نیچے کھیلتے کودتے گزرے تھے .وہ درخت ہی کرن کا دوست تھا ، بھائی تھا ، ساتھی تھا . کرن ہر روز سکول جانے سے پہلے اس کے نیچے کچھ دیر کے لئے جھولے پر بیٹھتی . جھولا جھولتی چڑیا کی میٹھی آواز سنتی اور پھر درخت کو خدا حافظ کہہ کر سکول چلی جاتی ،دوپہر کو بھی سکول سے آتے ہی سیدھی درخت کے نیچے جھولے پر جا بیٹھتی .
" کرن پہلے کھانا کھا لو پھر کھیلنا ." مما کی آواز آتی .وہ سنی ان سنی کر دیتی اور پھر دن بھر کی روداد درخت کو سناتی . نئی یاد کی ہوئی نظم اسے سناتی اسے لگتا جیسے وہ سن رہا ہے ، سکول میں اگر کسی سے لڑائی ہو جاتی تو بھی آ کر درخت سے شکایت کرتی اور کہتی .
" دیکھو دوست ، مجھے لڑائی بالکل اچھی نہیں لگتی ، تم اسے ڈانٹو اور کہو کہ مجھ سے دوستی کرے . دیکھو ناں جب میری اور تمہاری لڑائی نہیں ہوتی . ہم اچھے دوست ہیں تو آمنہ سے لڑائی کیسے ہو سکتی ہے وہ ہر روز مجھ سے کیوں لڑتی ہے . ہم دوست بھی تو بن کر رہ سکتے ہیں ناں."
زندگی تیزی سے اپنا سفر طے کرنے لگی . ہنستے کھیلتے دس سال اور اگے بڑھ گئے .