لیکن ساس کی آنکھوں کا تارا فرحانہ اور اس کے چار بیٹے تھے . ساس دبی،دبی زبان میں ریحانہ کو ... بے اولادی کا طعنہ دیتی تھیں لیکن وہ خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی جاتی . فرحانہ کے چاروں بیٹے بڑی تائی سے بڑی محبت رکھتے تھے . اور اکثر اپنے مسائل کے حل کے لئے اور کام کروانے کے لئے بھی وہ ریحانہ کے پاس ہی آتے .
شروع شروع میں تو ریحانہ نے بہت علاج کرواۓ . شوہر کے ساتھ اکثر ڈاکٹر کے پاس جاتی رہتی لیکن الله کو منظور نہیں تھا . وقت گزرنے کے ساتھ ساس کی کی تمام امیدیں آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں . اور جب کبھی اسے بے اولادی کا طعنہ دیتیں یا کوئی سخت بات کہتیں تو ایسا لگتا کہ ریحانہ کچھ اپنے دفاع میں کہنا چاہتی ہو لیکن شوہر کی وجہ سے خاموش ہو جاتی ....
پروین جو سب سے چھوٹی نند اوپر ہی رہتی تھی اسکی البتہ بڑی بھابی سے خوب بنتی تھی . وہ ساری باتوں کو سمجھتی بھی تھی کہ امی غلط کہہ رہی ہیں وہ اکثر ریحانہ کی طرف داری بھی کر رہی ہوتی . اسکا ہاتھ بھی بٹاتی غرض کہ دونوں کی کافی دوستی تھی . بڑے بھیا بھی پروین کو بہت چاہتے تھے اور اسکی ہر بات پوری کرتے .
سویرے ، سویرے ریحانہ کچن میں چلی جاتی . سب کا ناشتہ تیار کرتی اس دوران میں شوہر بھی ناشتہ کر کے چلے جاتے . فرحانہ ناشتے کے وقت نیچے آتی چاروں بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتی اور پھر تھوڑی دیر ساس کے ساتھ باتیں کرتی اور پھر دوپہر کے کھانے کے وقت آتی تھوڑا بہت دکھاوے کا کام کرتی اور پھر رات کے کھانے کے وقت ہی ملاقات کرتی کیونکہ سب کا کچن مشترکہ ہی تھا .بڑی بہو کے بھی دل میں اکثر آتا کہ اس گھر کے سارے کام وہ ہی کرتی ہے ، ساس کبھی ریحانہ کو کچھ نہ کہتیں اگر اس کے بچے نہیں ہیں تو اس میں اس کا کیا قصور ...؟ جوا ئنٹ فیملی ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ... سب کاموں کی ذمہ دار بھی وہی ہو اور باتیں بھی وہی سنے .
پروین بڑی بھابی کو حوصلہ دیتی اور ماں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتی لیکن سب بے سود ... ثابت ہوتا . وقت گزرتا گیا اسی ماحول میں اب بچے بھی بڑے ہوتے گئے . زیادہ تر بچے فارغ التحصیل ہو چکے تھے . فرحانہ کے دو بچے تو جاب پر بھی لگ گئے تھے .