" ارے ریحانہ کہاں ہو ، اتنی صبح ہو گئی ہے اور تم ابھی تک سو رہی ہو . چائے بھی نہیں بنی ، تمہیں معلوم تو ہے کہ تمہارے سسر جلدی ناشتہ کرتے ہیں اور میں شوگر کی مریضہ زیادہ بھوک برداشت نہیں کر سکتی . چلو اٹھ کر آؤ جلدی ... میری ہڈیوں میں اب اتنا دم نہیں ہے ." وہ بہو کے کمرے کے باہر ہی زور زور سے بول رہی تھیں .
آواز سن کر وہ فورا کمرے سے باہر آ گئی .
" ہاں امی میں ابھی ناشتہ تیار کرتی ہوں ، فجر کی نماز کے بعد دوبارہ آنکھ لگ گئی تھی اور انھیں آج ذرا دیر سے آفس جانا تھا اس لئے نہیں اٹھی ." ریحانہ نے وضاحت پیش کی .
اس گھر میں تمام کاموں کے لئے صرف بڑی بہو کو آوازیں دی جاتی تھیں . کسی کے کپڑے استری کرنا ہوں ، دروازے پر دیکھنا ہو ، سسر کو دوا دینی ہو ، مہمانوں کی خاطر مدارات کرنی ہو ، دودھ والے سے دودھ لینا ہو غرض کہ سب کاموں کے لئے بڑی بہو کو ہی آوازیں دی جاتی تھیں . اور بڑی بہو بڑی سرعت سے سب کی فرمائشیں پوری کر رہی ہوتی تھی.
ویسے تو اس گھر میں دو بہوئیں اور بھی تھیں . دوسرے نمبر کی ساجدہ تھی جو اپنے تین بچوں کے ساتھ امریکہ میں رہتی تھی . اسکا شوہر ائر لائن میں تھا . تیسری بہو فرحانہ تھی جس کے چار بیٹے تھے اور میاں بینک میں ا علی عہدے پر فائز تھے ... جہاں آرا کی تین بیٹیوں میں سے ایک انہی کے گھر کے ایک پورشن میں مقیم تھی . اسکا سسرال لاہور میں تھا . وہ گرمیوں ، سردیوں کی چھٹیوں میں وہاں چلی جاتی تھی . اگرچہ گھر کے سارے مکین ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن چھوٹی بہو فرحانہ بڑے نخروں اور تمکنت کے ساتھ رہتی تھی اور ساس کی شہہ پر کچھ زیادہ ہی اتراتی تھی اور اپنی من مانی بھی کر جاتی تھی اور اسکی وجہ اس کے اوپر تلے کے چار بیٹے تھے اور دوسری طرف بڑی بہو ریحانہ بیچاری جو اس نعمت سے محروم تھی ، وہ فرحانہ کی زبان اور اسکی حرکتوں کا نشانہ بنتی تھی لیکن صبر و تحمل سے وہ ہر چیز کا مقابلہ کرتی .
ریحانہ اور اسکا شوہر اختر کم گو اور سنجیدہ قسم کا تھا . ماں ، باپ کا بھی نہایت فرمانبردار اور سعادت مند ... سارے خاندان میں اس جوڑے کی سعادت مندی کی لوگ مثالیں دیتے پھرتے .