" بیٹی کے والدین ہونا جرم بن گیا ھے ." وہ افسردگی سے بولیں . وہ خود بھی دلی طور پر افسردہ ہو گئے مگر انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا .
اگلی صبح وہ معمول کے مطابق تیار ہو کر آفس چلے گئے ... سعدیہ دادا کے پاس آ گئی تھی .
" اپنی ماں کی باتوں پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ھے بیٹی ." دادا کی بات پر وہ چونکی .
" کیا مطلب ...؟"
" یہ عینک اگر صاف نہ رکھیں تو دھندلا نظر آتا ھے ." وہ روکے اپنی عینک صاف کی اور اسے دوبارہ لگاتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے اسے دیکھا اور مسکراۓ .
" یہ پینٹ بنانے والی کمپنیاں کتنا خرچہ کرتی ہیں صرف لوگوں کو یہ بتانے کے لئے وہ اپنے گھر ان سے خوب صورت بنائیں ، شاید ٹھیک ہی کرتے ہیں ، گھر خوب صورت ہی اچھے لگتے ہیں ."
" دادا جی ! آپ پر اماں کی باتوں کا اثر ہو گیا ھے ." وہ مدھم لہجے میں بولی .
" ہونہہ ...! عام آدمی کی باتوں میں اور ایک ماں کی باتوں میں یہی تو فرق ہوتا ھے ." انہوں نے پیار سے اس کے ہاتھ تھام کر کہا .
" اس گھر میں میرے سوا اور کوئی موضوع نہیں رہا ..." وہ اٹھ کر جانے لگی تو دادا جی نے اسے بٹھا لیا .
" بیٹا ! سورج کی پہلی کرنیں بڑی جلدی مر جاتی ہیں ، انھیں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رکھا جا سکتا ، عالیہ اسی لئے کرلاتی ھے ، سب سے زیادہ اسے تم سے محبت ھے ." وہ چند ساعت انکی بات پر غور کرتی رہی پھر بنا کچھ کہے اٹھ کر باہر آ گئی .
دماغ کو خوشی اور سکوں دینے کے لئے لیپ ٹاپ کے سامنے آ بیٹھی مگر پھر دل اچاٹ ہوا تو نمرہ کے گھر آ گئی ... وہی تو اس کی اکلوتی گہری دوست تھی .اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے کو گود میں دباۓ وہ اسے ہمیشہ تسلیاں دیتی تھی .