" سعدی اگر یہ دنیا خود غرضوں سے بھری ہوئی نہیں ھے تو خالی بھی نہیں ھے ."
" نمرہ میں اس مشق سے تنگ آ گئی ہوں . مجھے نہیں کرنی شادی وادی ."
" عورت کا یوں بھی تو گزارا نہیں ہوتا ناں ." وہ سچی دوست تھی دوست کی کیفیت پر تڑپ گئی .
" میں مزید مسترد نہیں ہونا چاہتی ."
" مسترد ہونا تو عورت کا مقدر ھے ." نمرہ کی آنکھوں میں اداسی اور بے بسی جھانکنے لگی . سعدیہ کو نمرہ کی یہ بات کچھ زیادہ پسند نہ آئییا پھر سمجھ میں ہی نہیں آئی، چاۓ پیے بنا ہی وہ لوٹ گئی ... نمرہ اسے کیا بتاتی کہ کس کس وجہ سے کب کب مسترد ہوتی ھے .
پھر کئی روز کی کشمکش کے بعد اس نے ملازمت کرنے کا فیصلہ دادا جی کو سنایا تو انھیں کوئی اعتراض نہ ہوا انہوں نے بیٹے بہو کو ... سمجھا بجھا کر راضی کر لیا .
" اس کے ذھن میں تازہ ہو جانے دو ." عالیہ بیگم چپ ہو گئیں ... سعدیہ نے ایک دو نہیں تین جگہ اپنا سی وی جمع کرایا ... ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے اسے بطور اکاونٹ افیسر آفر ہوئی تو اس نے جھٹ جوائن کر لیا . اس کا ذھن بٹ گیا ، گھر کے ماحول میں بھی کچھ تبدیلی آئی ، وہ کافی آسودہ ذھن ہو گئی تھی . کمپنی کے مالک مسٹر فیروز بہت اچھے انسان تھے ، درمیانی عمر اور درمیانی شکل و صورت کے مالک ، انتہائی نفاست سے بال سنوارے سعدیہ کو بہت اچھے لگے ، ان کے لہجے کی شائستگی کے باعث اس کی ذہنی دھند چھٹ گئی ، کھلکھلا کر ہنسنے لگی تھی ، چڑچڑا پن ختم ہو گیا تھا کیونکہ کام کے ساتھ ساتھ فیروز صاحب کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنا ادھر ادھر کی باتیں کرنا اچھا لگتا .
آج بھی جونہی کام ختم کر کے اس نے اپنا پرس اٹھایا تو فیروز صاحب اس کے آفس آ گئے .
" مس سعدیہ ...! آپ نے شادی کی جگہ نوکری کیوں کر لی ؟" غیر متوقع سوال تھا اس کا چونکنا یقینی تھا ... اس نے اپنی عینک اتار کر صاف کی اور کہا .
" کیونکہ میرا بچپن میں ہی اس سے نکاح ہو گیا تھا ..." عینک کی طرف کیے گئے اشارے نے فیروز صاحب کو چونکا دیا تھا .
" کیا مطلب ...؟"