Pages 9
Views339
SIZE
3 / 9

" کمال کرتی ہیں آپ ، عمر نکلی جا رہی ھے اور آپ کی لاڈلی میری ایک نہیں سنتی ." عالیہ چڑ کر بولیں تو زوار احمد نے شکست خوردہ انسان کی مانند ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا .

" مثلا کیا کرے سعدیہ ؟"

" جب معلوم ھے کہ لوگ ظاہری شکل و صورت دیکھتے ہیں تو ذرا ڈھنگ سے اپنا خیال رکھ لے قدم قدم پر پارلر کھلے ہیں ."

" اس سے کیا ہو گا ؟ تقدیر سے لڑنے کی کوشش نہ کیا کرو اور اسے اپنی مرضی سے جینے دو ." وہ یہ کہ کر اٹھنے لگے تو وہ بولیں .

" بیٹی کو سیکھ نہ دیجئے گا ."

" کیسی سیکھ ...؟ لوگوں کی پست سوچ کا کوئی جواب نہیں ھے میرے پاس ، اس صدی میں بھی لوگوں کے لئے عینک معیوب ھے . ذہانت ، قابلیت کی جگہ شکل و صورت اہم ھے ، اور میں کیا کہوں ؟" وہ کافی طویل سانس لے کر کمرے کی طرف بڑھ گئے .

عالیہ بیگم رنجیدہ خاطر سی ان خواتین کے بارے میں سوچنے لگیں . جنہوں نے سر سے پیر تک اسے دیکھا اور اشارے سے عینک کے حوالے سے کوئی بات کی اور پھر جاتے ہوئے واضح طور پر کہہ گئیں .

" معاف کرنا بہن ! نظر کی کمزوری اگے بچوں میں بھی آ جاتی ھے اور پھر رنگت بھی بہت گہری ھے .'

" ایسی بھی بات نہیں ھے ، اب میں اور سعدیہ کے بابا دونوں ماشا اللہ ٹھیک ہیں اور ٹھیک تو سعدیہ بھی ھے ." عالیہ بیگم نے دل مضبوط کر کے دبے دبے غصے سے کہا .

" ویسے بھی دو چار بچوں کے بعد عینک لگے تو فرق نہیں پڑتا ." ان کی اس بات پر عالیہ بیگم غصہ ضبط کر کے خاموش ہو گئیں .

" ہونہہ ...! کتنی جاہلانہ سوچ رکھتی ہیں خواتین ..." وہ بڑبڑائیں .

" عالیہ بیگم ! کیوں کڑھتی ہو ؟ یہ انسانی رویے ہیں ، کوئی آخری رشتہ تو نہیں تھا ناں یہ ... " رات جب وہ تھک ہار کر کمرے میں آئیں تو زوار احمد ان کے چہرے کے تاثرات غور سے دیکھتے ہوئے بولے .