" اماں ! یہ اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں ھے ، ہر دوسری لڑکی کو عینک لگی ہوئی ھے ."
" جرح نہ کیا کرو یہ لڑکے والوں کے نزدیک لڑکی کا عیب ھے ." عالیہ بیگم جھنجھلا کر بولتیں تو وہ مزید بھڑک اٹھتیں.
" میں اسے عیب نہیں سمجھتی ، میں کیوں چھپاؤں ."
" ٹھیک ھے ، جو جی میں آئے کرو ." وہ جھنجھلا کر چلی جاتیں تو سعدیہ دادا ابا کے سر ہو جاتی .
" دادا جی ... اماں کہتیں ہیں کہ میں جھوٹ بولوں ."
" جھوٹ بولنا نہیں ، جھوٹ دکھانا چاہتی ہیں ." دادا جی اس کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر نرمی سے کہتے .
" میں جو ہوں سو ہوں ، ایسے ہی جسے قبول کرنا ھے کرے ، میری مجبوری نہیں ھے ." وہ تلملا کر کہتی اور پھر وہ سچ مچ ایسا ہی کرتی .
عالیہ بیگم دانا خاتون تھیں اور انھیں حالات بدلنے کا شعور تھا ، ان کے نزدیک بھی یہ کوئی بڑی بات یا عیب نہ تھا مگر اتفاق تھا کہ پڑھے لکھے گھروں سے آنے والے لوگوں کی سوچ نہیں بدلی تھی ... اس پریشانی کے بائث بہت سے آئی سرجن اور اسپیشلسٹ سے مشورے کر چکی تھیں مگر سعدیہ کا عینک کے علاوہ کوئی علاج نہ تھا ... عالیہ بیگم کو ڈاکٹرز سے اتفاق تھا مگر رشتے کے لئے آنے والی خواتین کی باتیں برداشت کرنا بڑا کٹھن کام تھا ... مگر کیا کرتیں سعدیہ کو ایم ایس سی میتھ کیے ہوئے بھی تین سال ہو گئے تھے ، سب سہیلیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں ... اکلوتی بیٹی کی بڑھتی ہوئی عمر کو وہ کسی طور روک نہیں سکتیں تھیں ... زور احمد لاکھ انھیں تسلیاں دیتے ... آج بھی وہ کئی بار کی کہی ہوئی بات دوہرا رہے تھے .
" عالیہ ! بیکار میں کڑھنے کا فائدہ ...؟ جہاں ہماری بیٹی کا مقدر ہو گا وہاں بات بن جائے گی ."