اماں کی چبھتی ہوئی نظروں کا مطلب بھانپ کر اس نے نوالہ پلیٹ میں چھوڑا اور کرسی پرے دھکیل کر تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ... اس کے جاتے ہی عالیہ بیگم نے نے شوہر کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چرا گئے .
یہ کوئی نئی بات نہ تھی ، اب تو تقریبا ہر دس پندرہ روز کے بعد ایسا ہی دن آتا تھا اور ایسی ہی شام جب سعدیہ کو دیکھنے کوئی فیملی آتی تھی تو ان کی نظروں سے چھلکتی ناپسندیدگی دیکھ کر عالیہ بیگم ، زوار احمد اور خود سعدیہ بھی جان لیتی تھی کہ وہ لڑکے والوں کی پسند نہیں بن سکی ، بات اتنی سی تھی کہ سعدیہ اس کے بعد بھی نارمل اور مطمئن رہتی جبکہ عالیہ بیگم اور زوار احمد کے اندر تھکن اور اضطراب اور بڑھ جاتا تھا ... وہ سعدیہ کو زیادہ نہیں اتنا قصوروار ضرور سمجھتے تھے کہ وہ انکی بات نہیں مانتی تھی ، اسکی شکل صورت بس واجبی سی تھی اس پر البتہ نظر کا مسلہ سنگین صورت حال اختیار کر چکا تھا ... اسکی دائیں آنکھ میں پیدائشی موتیا تھا جو ٹھیک بائیس سال کے بعد پک کر مشکلات پیدا کرنے لگا تھا آئی سرجن نے اپریشن کر کے لینس ڈال کر عینک لگا دی ' دونوں آنکھوں کے نمبر الگ الگ تھے اس لئے عینک لگانا لازمی تھا ... مگر یہ مسلہ زہین فطین سعدیہ کی زندگی کا عیب بن گیا تھا .
" خدا کے لئے یہ عینک لگا کر اندر نہ آنا ."
جب لڑکے والے اسے دیکھنے آتے سعدیہ کو عالیہ بیگم علیحدگی میں لے جا کر کہتیں .
" کیوں ، یہ کسی اور کی نہیں میری ھے ، میری ذات کا حصہ ھے ." وہ بگڑ کر کہتی .
" ہاں ! مگر اس کی پہلی بار نمائش ضروری نہیں ھے ، لڑکے والے حورتلاش کرتے ہیں ، اوپر سے عینک ہو تو برا سا منہ بناتے ہیں ."
" کمال کرتی ہیں آپ ، عینک کوئی جرم یہ گناہ تو نہیں ھے اور اب کیا ، کیا کھرچ کر چہرہ تبدیل کروں ؟"
" فالحال عینک ضروری نہیں ھے ."