" پہلے شرط تو سن لو ." انہوں نے اسے اتنی بےتابی دکھانے پر ٹوک دیا . زمر لمحے بھر کو کسی عجیب سے احساس کے زیر اثر خاموش سی کھڑی رہ گئی . نظر اٹھا کر صدیق احمد کو دیکھا تو تھرا کر رہ گئی انکی بولتی نگاہوں میں کئی پیغام روشن نظر آ رہے تھے .
" اس ڈیڑھ لاکھ کے عوض تمہیں اپنا کچھ قیمتی وقت میرے ساتھ بتانا ہو گا کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا . صرف چند گھنٹوں کی تو بات ھے . یوں سمجھو کہ بات تمہارے اور میرے بیچ میں رہے گی . اعظم اپریشن کے بعد گھر آ جاۓ گا ، زندگی اپنی ڈگر پر رواں دوا ں رہے گی . تم اچھی طرح سوچ لو .... آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا . اعظم کی زندگی یا پھر ....؟" صدیق احمد نے مکروہ قہقہہ لگاتے زمر کے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا تھا .
" صدیق بھائی رحم کریں ، میں آپکی بھاوج ہوں ." وہ ایک مرتبہ پھر گڑگڑائی تھی . اپنے شوہر سے بے وفائی کی وہ مرتکب ہو سکتی تھی نہ ہی اسے مرتے ہوئے دیکھ سکتی تھی عجیب دوراہا تھا . پل صراط پہ کھڑے اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے .
" جب بھائی سے کوئی تعلق داری ہی نہیں تو پھر تم سے کیسا رشتہ .... دیکھو لڑکی آج کے زمانے میں کچھ پانے کے لئے کچھ نہ کچھ قربانی تو دینی پڑتی ھے ناں ... اعظم نے بھی تو تمہیں پانے کے لئے اپنے خاندان کو چھوڑ دیا تھا تو کیا تم اس کی زندگی بچانے کے لئے یہ ذرا سی قربانی نہیں دے سکتیں ؟" انہوں نے جیسے فرار کے سارے راستے مسدود کر دیے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی .... اور پچھلے کئی گھنٹوں سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی .
" آپ نے اپریشن کے لئے فیس جمع کرا دی ؟"
ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر آئے تو انہوں نے باہر آئی سی یو کے دروازے کے پاس دوزانو بیٹھی زمر سے پوچھا . اسکی سانس رک گئی اور اس نے نفی میں سر ہلا دیا .
" دیکھیں جلدی کریں . مریض کے لئے ایک ایک لمحہ بہت ضروری ھے ." وہ اتنا کہہ کر اگے بڑھ گئے . زمر گویا جلتے کوئلوں پر چلنے لگی بے بسی سے ڈبڈبائی نگاہوں سے سفید پٹیوں میں جکڑے اپنے عزیزاز جان شوہر کو دیکھا ان واحد میں فیصلہ ہوا تھا .