" مجھے معاف کر دینا اعظم مجھے اس خیانت کی معافی دے دینا پر میں تمہیں یوں مرتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتی ." اس نے بے خبر سوۓ وجود سے سرگوشی کی .
ساری رات اس نے جلتے بلتے گزار دی تھی . سردی میں ساری رات مسجد کے صحن میں اکڑوں بیٹھنے سے اس کی کمر تختہ ہو چکی تھی . ساری رات اس نے مسجد کے صحن میں روتے اور فریاد کرتے گزاری تھی . صبح کے پھوٹنے پر اس نے جیسے خود کو ہر انہونی کے لئے تیار کر لیا تھا . اس نے اپنی ساری ہمت مجتمع کر کے اعظم کی طرف جانے کی کوشش کی تھی پر اس کے قدم چلنے سے انکاری تھے . وہ کس منہ سے اس کے سامنے جاۓ گی اور کس طرح اسکی شکوہ کناں نظروں کا سامنا کر پاۓ گی ؟
اس نے جیسے خود کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار کر لیا تھا . اس نے ٹھنڈی اہ بھر کر آسمان کی جانب نگاہ دوڑائی تھی . وہ جب کوریڈور میں آئی تو وہاں غیر معمولی رش تھا زمر کو اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی . اس نے بے ساختہ دیوار کا سہارا لیا تھا .خوف اور سراسیمگی اس کے وجود کے ہر عضو سے عیاں تھی .
" اعظم ...." اس کے منہ سے جیسے کرلاھٹ کی صورت نکلا . " میں تم سے اپنی محبت نہیں نبھا پائی." اس نے وہیں دیوار سے ٹیک لگاۓ اعظم سے معافی مانگی . کوریڈور سے اب رش چھٹنے لگا . لگتا تھا کہ کوئی ایمرجنسی آئی تھی .
" ارے آپ ادھر کھڑی ہیں ، اندر چلیں آپ کے مریض کو ہوش آ گیا ھے . رات ان کا اپریشن کامیاب ہو گیا تھا ." اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا ایک نرس اس کے قریب کھڑی کہہ رہی تھی . اس نے غائب دماغی سے نرس کو دیکھا اسے لگا اسے کوئی غلط فہمی ہوئی تھی .
" تم .... کس کی بات کر رہی ہو ؟" اس کے منہ سے سرسراتے ہوئے نکلا .
" آپ مسز اعظم ہیں ناں ؟" اس کا سر بے ساختہ اثبات میں ہل گیا . نرس نرمی سے مسکرائی تھی .
" میں آپ کے شوہر ہی کی بات کر رہی ہوں . ان کا اپریشن کامیاب رہا ' اب وہ ہوش میں ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں . آپ رات بھر کہاں تھیں ؟" نرس کے آخری سوال پر وہ گڑبڑا گئی تھی . کیا ساری دنیا کو خبر ہو گئی کہ زمر اعظم کس آزمائش سے دوچار کی گئی تھی اور وہ اس پر پوری بھی اتری یا نہیں .