SIZE
3 / 7

" میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ اسکا باپ لا پتا ھے اور اسکی ماں نے ہی اسکی پرورش کی ھے ."

" کہاں گیا ھے اسکا باپ اور باقی خاندان .... ددھیال ، ننھیال کیا وہ بھی لا پتا ہو گئے ہیں ؟" وہ ترخے.

" انکا اپنے ددھیال ' ننھیال سے ملنا جلنا نہیں ھے ." اب کی بار اعظم کا سر جھک گیا تھا .

" واہ میاں یہ بھی خوب کہی ، ایک بات ہماری بھی سن لو . ہم ہرگز کسی ایسی لڑکی کو بیاہ کر نہیں لائیں گے جس کا باپ لا پتا ہو اور ان کا اپنے خاندان والوں سے میل جول نہ ہو . ہمیں ایسے مشتبہ خاندان سے رشتہ داری منظور نہیں ھے کیونکہ عشق کی پٹی تمہاری آنکھوں پر بندھی ھے زمانے والوں کے نہیں ." ان کے سفا چٹ جواب دینے کے باوجود بھی اعظم احمد نے ہار نہیں مانی تھی . صدیق احمد کی تعلق توڑنے کی دھمکی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی تھی انہوں نے کہا اور اعظم احمد نے کر دکھایا تھا .زمر کے ساتھ شادی کرنے کے بعد وہ علیحدہ گھر میں رہنے لگے تھے مگر اچانک ہونے والا شدید ایکسیڈنٹ انھیں موت کے دھانے پر کھڑا کر گیا تھا . اس کے جسم کا کافی خون بہہ چکا تھا . سر پر بھی شدید چوٹ آئی تھی اور انھیں فوری اپریشن کی ضرورت تھی . زمر کے پاس اور تو کوئی چارا نہیں تھا جمع جتھا جو تھا جو تھا وہ تو اسپتال لانے اور ایمرجنسی میں ہی خرچ ہو گیا تھا . ایسے میں ڈیڑھ لاکھ کا فوری انتظام وہ کہاں سے کرتی . اسی لئے ایک آخری امید پر وہ اپنے بڑے جیٹھ کے پاس آئی تھی .

" ایک شرط پر میں تمہیں اپنے شوہر کے علاج کے لئے روپے دے سکتا ہوں ." اچانک انہوں نے اس کے بے داغ حسن کو گہری نظروں سے جانچتے ہوئے کہا . زمر نے بے ساختہ اپنا دوپٹہ اپنے شانوں پر درست کیا .

" مجھے آپ کی ہر شرط منظور ھے بھائی صاحب ."

وہ فوری آمادہ ہو گئی . صدیق احمد نے اسے گہری نگاہ سے دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے ڈیڑھ لاکھ کا چیک کاٹ کر اس کے سامنے رکھ دیا . زمر کو اس کاغذ کے ٹکڑے میں زندگی سانس لیتی محسوس ہوئی . اس نے لپک کر چیک اٹھانا چاہا پر صدیق احمد نے اچک لیا .