اسی لئے اس کام میں ہمارا غیر جذباتی اور غیر جانبدارانہ ہونا ضروری تھا ' مگر وہ اکثر ہی جذباتی ہو جاتا اور وہ کر گزرتا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ ہوتا . اس کی شکایت آ جاتی اور پھر مجھے اسے ' اکیلے تمام تر ذمہ داری اٹھانے سے بچانے کے لئے اس کے ہر عمل کا حصہ دار بننا پڑتا . تم ایک ساتھ حکام بالا کے سامنے مجرم بن کر جاتے اور ڈانٹ کھا کر واپس آ جاتے .اس کے بعد میری باری آتی کہ میں اسے ڈھیروں ڈھیر سناؤں. میں اپنی بد اخلاقی ... بد زبانی اور بد مزاجی کا بھرپور مظاہرہ کرتی ... وہ نظریں جھکاۓ خاموشی سے بیٹھا رہتا . ایک دن ایسی ہی کسی تنبیہی میٹنگ کے بعد میں یوں تو کچھ فائلز اس سے لینے اس کے آفس گئی تھی ' مگر اس کو ہنس ہنس کر فون پر بات کرتے دیکھ کر مجھے اس پر اور بھی غصہ آ گیا . میں نے اسے طنز ا کہہ دیا .
" تم سب مرد ایک جیسے ہوتے ہو . غصے میں پاگل دیوانے ہو جانے والے ... کچھ پتا نہیں چلتا پھر تم لوگوں کو کہ کیا صحیح کر رہے ہو ' کیا غلط ... بس کر گزرتے ہو ." وہ فون بند کر چکا تھا ' میری بات پر اس نے پہلی بار مجھ سے نظریں ملائیں اور اطمینان سے گویا ہوا .
" آپ اپنے ذاتی تجربات مجھ پر لاگو نہ کریں ' پلیز ."
یہ بہت بڑی بات تھی . اپنے سے ایک درجے کم حیثیت پر کام کرنے والے اپنے کولیگ سے یہ بات سننے کی میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی . میں غصے سے بلبلا گئی اور سامنے رکھی تین چار موٹی بھاری بھرکم فائلز جذباتی انداز میں دائیں ہاتھ سے اٹھا کر تیزی سے آفس سے باہر نکلنے لگی کہ اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے ساری فائلز لے لیں .
" پلیز ... ایسا نہ کریں ... آپ کے ہاتھ میں تکلیف ہو جاۓ گی .آپ اپنے آفس جائیں ' میں یہ سب لے کر آ رہا ہوں ."
اس کی ہمدردی پر میں حیران رہ گئی ... اس بات پر زیادہ حیران ہوئی کہ اس وقت وہ غصے میں تھا . میرے طنز پر بہت آسانی سے مجھے سزا دے سکتا تھا ' میں یوں فائلز لے کر چلی جاتی تو ' مگر پھر کئی روز تک اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پکڑے پھرتی رہتی ... اس غصے میں بھی مجھے تکلیف دینا اسے گوارا نہ ہوا ' پھر ... اسے کیسے پتا چلا کہ میں اس ہاتھ سے کوئی بھی کام نہیں کر سکتی ... کر لوں تو تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہوں ... پھر اس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے ذاتی تجربے کی بھی بات کی تھی ... تو کیا اسے ان چند دنوں میں ہی میرے بارے میں اس قدر معلومات مل چکی ہیں ؟ یہ میرا وہم تھا کہ وہ مجھے نظر انداز کر کے دوسرے دوستوں میں مگن ہو چکا ھے ' مگر ایسا نہیں تھا ' وہ دوسروں میں بیٹھ کر مجھے ہی جاننے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا . اف اب کیا کہوں ... کیا کروں ... کیا رد عمل دکھاؤں؟
خود پر گزرنے والے کچھ واقعات جتنے بھی عام ہو جائیں جتنا بھی مشہور ہو جائیں ' وہ جب بھی دہرائے جاتے ہیں ' نئے سرے سے تکلیف دیتے ہیں ... میں یہ شاید سب سے آخر میں چاہوں گی کہ کوئی مجھے میرے دستانے میں چھپے ہاتھ کی کہانی یاد دلاۓ... یا یہ بتانے کی کوشش کرے کہ وہ جانتا ہے .
اس بھیانک رات میں ہونے والے حادثے کو سمجھ چکا ھے . میری قربانی کے گواہوں میں ایک اور کا اضافہ ھے .