SIZE
3 / 8

آفس میں اس کے شروع کے دن تھے ' جب اس نے مجھ سے دو چار بار قریب ہونے کی کوشش کی تھی اور میرے دوک ٹوک جواب دینے پر بڑی حیرت سے مجھے دیکھا تھا ' کیونکہ ایسے نفیس ... پر وقار ... ہر دلعزیز لودوں کو یہ گمان ہوتا ھے کے انکی شخصیت سے متاثر ہو کر سامنے والا ممکن ہی نہیں کہ انکی کسی بھی طرح کی پکار پر لبیک کہنے کی بجاۓ پیچھے ہٹ جاۓ گا . سو وہ بیحد حیران ہوا تھا ... پھر میری بد مزاجی اور بد اخلاقی کے چرچے جب اس تک پہنچے تو وہ بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ کر آفس میں دوسرے کئی دوست بنا چکا تھا . ہاں یہ ان ہی میں جچتا ہے . اس کے ہی جیسے خوش مزاج ... کھلکھلاتے ... ہنستے کھیلتے اس کے دوسرے کولیگز کے درمیان ... مجھے معاف رکھو ... براۓ مہربانی مجھے کسی قسم کی کوئی امید نہ لگاو ... میں ممکن حد تک اس سے دور رہنے کی کوشش کرتی ' مگر مرتی کیا نہ کرتی کہ اسکا اور میرا پروجیکٹ ایک ہی تھا . میں اس سے بہت پہلے سے اس ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہی تھی . لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اسے کئی بار بہت سی جگہوں پر کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بہت کچھ سمجھانا ... بتانا پڑتا ... ہمیں کسی بھی میٹنگ میں ساتھ جانا پڑتا ... کسی بھی کیس کے متعلق اپنی معلومات اور اپنا سروے مکمل کرنے کے لئے ساتھ ہی آفس سے باہر نکلنا پڑتا ... جو کہ ہمارے کام کا حصہ تھا .

برطانیہ کی حکومت سے منسلک اس آفس میں ہمارا ڈپارٹمنٹ پاکستان میں برطانیہ کے پاکستانی شہریوں کو پاکستان آنے پر کسی قسم کی مشکل پیش آنے پر مدد دینے پر مامور تھا . جب بھی کوئی پریشان برطانوی پاکستانی ہم سے رابطہ کرتا ' ہم اس کو یا تو اپنے آفس بلا لیتے یا پھر اس کے پاس جاتے ... اور ان ہی لوگوں میں ایسے برطانوی پاکستانی لڑکے ' لڑکیاں بھی شامل تھے جو پاکستان شادی کرنے آتے اور یا تو سسرال یا پھر کسی رشتہ دار کے ہاتھوں پریشان ہو جاتے ... جب کسی مرد کا معاملہ ہوتا تو میں صرف اسے روانہ کرتی ہم مسلسل ایک دوسرے سے فون پر رابطے میں رہتے ... ہمارے آفس کی نمبر پلیٹ کی گاڑی ... ڈرائیور اور ایک عدد گارڈ نہی ساتھ جاتا ... مگر جب کسی عورت کا کیس آتا تو مجھے ساتھ جانا پڑتا تھا .

شروع میں مجھے اسے سمجھانے اور طریقہ کار بتانے میں بڑی دقت ہوئی . ہم کسی کی بھی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دے سکتے . ہم بھی بغیر اجازت گھر میں داخل نہیں ہو سکتے . کسی سے بھی بد زبانی نہیں کر سکتے . لیکن اگر ہمیں محسوس ہو کہ ایک برطانوی شہریت کے حامل کسی شخص کو جسمانی خطرہ لاحق ھے تو ہم پہلے علاقے کی پولیس اور پھر اپنے گارڈ کے زریعے تمام طرح کی اخلاقی حدود توڑنے پر حق بجانب ہیں . اتنا سمجھنا کافی تھا کہ ہمارا کام مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ھے . جس کے لئے صرف اپنی چھٹی حس کو کام میں لا کر ہی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر کے بڑے بڑے قدم اٹھائے جاتے تھے . اکثر ایسا ہوتا کہ معاملہ بالکل برعکس نکلتا ' جو مظلوم بننے کی کوشش کر رہا ہوتا ' اصل میں وہی بد معاشی کرتا اور صرف اپنی برطانوی شہریت اور حیثیت کو بروے کار لا کر دوسروں کو تنگ کرتا ...