ایک بار سخت گرمی تھی . دور تک نظر دوڑایں تو ایسا لگتا تھا کے جیسے زمین تپ رہی ہو . آگ برس رہی تھی اور اتنی گرمی تھی کہ جانور بھی ہانپ گئے تھے . لوگ بارش مانگ رہے تھے . ان کا خیال تھا کہ بزرگوں کو خوش کرنے سے الله بھی خوش ہوتا ہے اور جب الله خوش ہوتا ہے تو بارش برساتا ہے . اس لئے وہ سب اپنے بزرگوں کی بہت خدمت کرتے تھے اور انھیں راضی کر کے دعائیں لیتے .
ان لڑکیوں نے بھی بزرگوں کو خوش کرنے کا پروگرام بنا لیا اور بالٹیاں لے کر کنویں پر پانی لینے چلی گئیں . گرمیوں میں کنویں کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا . انہوں نے اپنی بالٹیاں بھر لیں اور رجو کا گھر سب سے پہلے آتا تھا . رجو کی دادی دیوار کے ساتھ مصلے پر نماز ظہر پڑھ رہی تھیں . رجو نے سب کو ڈیوڑھی میں رکنے کا کہا اور خود آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دادی کے پیچھے کھڑی ہو گئی . جب دادی نے سلام پھیرا تو آہستہ سے بالٹی دادی کے اوپر انڈیل دی . دادی کا ہوکا نکل گیا . دادی نے کہا " در فٹے منہ ، میں نے ابھی نہ کے کپڑے بدلے تھے سب گیلے ہو گئے ." ادھر سے سب کے ہنسنے کی آواز آئی. مگر پھر دادی نے کہا " ویسے ٹھنڈ پر گئی ، مزہ آ گیا بڑی گرمی لگ رہی تھی ."
رجو نے پیچھے سے دادی کو جپھی ڈال لی . پھر سب لڑکیاں آ گئیں اور دادی نے خوش ہو کر سبکو دعا دی . پھر باری باری سب کے گھر میں جا کر بزرگوں کے اوپر پانی ڈالا اور سب کے ہوکے نکلے . سب رجو کی عادت جانتے تھے اس لئے اسے کچھ نہ کہا بلکہ اس کے ساتھ ہنسے . سارا دن یہی تماشا چلتا رہا اور شام کو بارش ہو گئی . سب انسان ، درخت اور چرند پرند خوش ہو گئے . رضیہ کی طرح اسکی دادی کی طبیعت بھی تیز تھی اس لئے رضیہ کا اپنی دادی کے ساتھ پنگا چلتا رہتا تھا . کبھی دادی رجو کو ڈانٹتی اور کبھی رجو دادی کو . وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت کرتی تھیں ایک دوسرے کے بغیر رہتی بھی نہیں تھیں . دونوں ایک کمرے میں سوتیں اور ایک دوسرے کے ساتھ سہلیوں کی طرح باتیں کرتیں . رجو اپنی دادی سے پرانے وقتوں کی کہانیاں سنتی تھی . دادی کی زندگی کے حالات اور اپنے ابو کے بچپن کے واقعا ت سب دادی سے سنے اور سن کر دادی کی غلطیاں بھی نکالتی رہتی تھی جیسے دادی رجو کی غلطیاں نکالتی تھیں .
رضیہ کے تین بھائی تھے اور وہ اکیلی بہن تھی . وہ سبکی لاڈلی تھی . اگر رضیہ اپنی دادی کو کسی کی شکایت لگاتی تو دادی اس سے لڑنے چلی جاتی تھیں لیکن رضیہ تو خود ہی اپنا حساب پورا کر کے آتی تھی . دادی کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو فارغ نہیں بیٹھنا چاہیے اس لئے انکو کام میں لگاے رکھنے کی کوشش کرتی رہتیں . یہ کرو وہ نہ کرو ، ادھر بیٹھو ، کپڑا لو اور جھاڑ پونچھ کرو . رجو کپڑا دادی کے ہاتھ میں دیتی اور کہتی کہ دادی خود ہی جھاڑ لو . بس اسی طرح دادی اور پوتی رونق لگاۓ رکھتی تھیں . اگر گھر میں کوئی چیز ٹوٹ جاتی تھی تو دادی سب سے پہلے بیٹے کو رجو کی شکایت لگا دیتی تھیں اور بیٹا اپنی ماں کا دل رکھنے کے لئے رجو کو ڈانٹ دیتا تھا . رجو کا منہ بن جاتا اور دادی خوش ہو جاتیں . دادی کو دوا یں کھانے کا بہت شوق تھا اور کبھی کبھی وہ گاؤں کے حکیم کے پاس چلی جاتیں تھیں اور حکیم دادی کو ایسے ہی کوئی شربت دے دیا کرتا تھا اور دادی لی کے واپس آ جاتی تھیں .