SIZE
4 / 8

" کیوں بھلا ' خوش کیوں نہیں . بس سوچتی ہوں کہ میری مالن چلی جائے گی تو میرے پودوں کا خیال کون رکھے گا . " اماں مجھے گلے لگا کر رو دیں .

" اماں میں روز آیا کروں گی ." بھلا میں نے کب چاہا تھا کہ اماں اداس ہو جائیں .

انعم البتہ اماں کے ساتھ بازاروں کے چکر لگایا کرتی ' وہ حقیقت میں اماں کے لیے بیٹے کیطرح بنتی جا رہی تھی . حقیقت پسند اور زندگی کی نظروں میں ناظرین ڈال کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت اس میں موجود تھی . ابو تو اسے اب انعم خان کہا کرتے تھے .

بہار کے موسم میں رخصت ہو کر میں ڈاکٹر سہیل کے آنگن میں آ گئی . ہماری نانی اماں کا انتقال ہو چکا تھا . اس دن میں نے اماں کو سسک سسک کر روتے دیکھا تھا . اب تو وہ پودوں سے بھی باتیں کرتے کرتے رو دیتیں . ' اماں کی پودوں سے محبت میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہوئی تھی .

اب میں جس روز اماں سے ملنے جاتی ' جی بھر کر باتیں کرتی . اماں کے ساتھ پودوں کی کانٹ چھانٹ کرتیں ' اماں میرے سر میں مالش کرتیں .

" اماں ! اتنا لاڈ نہ کیا کریں ." میں اکثر کھوئی کھوئی سی کہا کرتی .

" کیوں ... کیوں نہ کروں میری کونسا دس اولادیں ہیں ."

" بس پھر جب کم کم پیار ملے تو بھولنا مشکل ہو جاتا ہے ."

" تو خوش تو ہنے نا ." اماں اکثر پوچھتیں .

دن کبھی بے حد اچھے اور کبھی بس ایسے ہی گزرتے جا رہے تھے .