میں اب معصوم سے دانیال کی ماں بن گئی تھی .
میں بھی اماں کی طرح مالی کے ساتھ پودوں کو لگانے میں مصروف رہتی ' شام کو ضرور موتیا کے پھول ساس امی کے کمرے میں اور کچھ اپنے سرہانے رکھ لیتی . سہیل اس محبت کو مسکرا کر قبول کرتے ' لیکن اپنے طور پر وہ ان چیزوں کے لئے وقت نہ نکال پاتے .
میری ساری خوشیاں ننھے دانیال کے وجود میں سمٹ کر رہ گئی تھیں . منی پلانٹ کی دیکھ بھال بالکل اماں کی طرح کرتی ' اکثر مالی بابا بھی حیران ہوا کرتے .
" بیٹا آپ کو یہ بیل بہت پسند ہے ." ایک روز وہ کہہ بیٹھے .
'"ہاں بابا ' اس سے میرا بچپن ' سکون اور کہانیاں جڑی ہوئی ہیں ."
اس دن میں منی پلانٹ کا پانی بدل رہی تھی ' جب سہیل نے ہنس کر کہا . " بیگم ! تم بھی اسے مالی بابا کی طرح منی پلانٹ کہتی ہو . بٹ دس از رونگ ." وہ گاؤن کی بیلٹ سے کھیلتے ہویے بولے .
" کیا غلط کیا صحیح بس میری اماں اور نانی اماں کہا کرتی ہیں کہ یہ سکون میں بڑھتا ہے .
" لیکن یہ مے نی پلانٹ ہے ' کیونکہ اس کے بہت سے روٹس نکلتے ہیں . جن سے کئی اور پودے نکلتے ہیں ." وہ مجھے بچوں کی طرح سمجھا رہے تھے .
لیکن کچھ باتیں چاہے وہ غلط ہوں ہمیں ویسے ہی اچھی لگتی ہیں ' مجھے بھی اسے منی پلانٹ ہی کہنا اچھا لگتا تھا . میں اس کے متعلق کوئی آگاہی نہیں چاہتی تھی . اس بے خبری میں پیار تھا . بس یہ پتا تھا کہ سکون کی فضا میں پھلتا پھولتا ہے . سینہ بہ سینہ چلتی وہ چھوٹی سی بات تھی ' اماں کی ان کہی اور نانی اماں کی کہی ہوئی .
میں بھی تو کمرے میں ' گھر میں ' سکون کے لئے اس پودے پر محنت کرتی تھی . اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کر کے علامہ نہیں بننا چاہتی تھی . کیوں ؟ یہ مجھے بھی خبر نہ تھی .ان ہی دنوں اماں کو بلڈ پریشر بڑھنے سے رات کے نجانے کس پہر دل کا دورہ پڑا اور اماں خاموشی سے چل دیں. یہ جانے بغیر کے وہ ہم سب کے لئے کتنی اہم تھیں .