اماں اکثر جب طبیعت بہتر ہوتی تو پودوں سے باتیں کرتیں .منی پلانٹ کی بیلیں اب تو ہمارے آنگن میں ' کمروں میں ' ہر جگہ ہریالی پھیلاتی نظر آتیں .
مجھے بھی اماں کی قربت کی وجہ سے پودے بہت اچھے لگتے . اب تو ابو نے سارے صحن میں دیوار کے ساتھ کیاری بنوا دی تھی . جس میں رات کی رانی اور موتیا کے پودے گھر کی فضا کو رونق بخشے . بارشوں کے موسم میں انعم کو میں کمپیوٹر کے سامنے سے زبردستی اٹھلاتی اور قدرت کے اس خوبصورت اور دل میں اتر جانے والے موسم کے مزے ہم سب پکوڑوں اور چاۓ کے ساتھ دوبالا کرتے .
بے حد پر سکون ماحول تھا . پھر کالج شروع ہوا ' دوستوں کے زندگی کچھ اور خوبصورت ہو گئی .میں سب کو انکی سالگرہ پر پھول ہی گفٹ کیا کرتی تھی . بقول میری دوست منزہ کے پھولوں سے ممحبت کرنے والے لوگ بہت رومانٹک ہوتے ہیں .
کالج سے واپسی پر اماں نے زیادہ تر ہم دونوں بہنوں کی پسند کا کھانا بنایا ہوتا . انعم تو دال اور چاول شوق سے کھاتی ' مگر میرا تو یہ اصول تھا کہ جب اور جہاں مزیدار کھانا ہو نوش کر لو . سولہ سترہ سال کی عمر میں پہلے خالہ جان نے اپنے بیٹے کے لئے اماں سے بات کی پھر پھپھو جان نے فراز بھائی کے لئے مجھے مانگا . اماں فکر مند ہو گئیں.
" ابھی تو یہ صرف ہر بات پر ہنسنا جانتی ہے . ذمہ داری بڑی مشکل بات ہے . کم از کم بیس کی تو ہو جائے ."
یوں بی –اے کے بعد ڈاکٹر سہیل کا رشتہ آیا تو ابو نے فورا ہی ہاں کر دی . جبکہ اماں خوش نہ تھیں .
" اماں ! آپ خوش نہیں اس رشتے سے ." ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا .