SIZE
4 / 11

اسکا خیال تھا کے اماں کو اس پر رحم آنا چاہیے تھا . میاں بیوی کے درمیان بڑھتے ہویے تناؤ کا سوچنا چاہیے تھا . اور کچھ نہیں تو انسانیت کے ناطے ہی ہی سہی کچھ نہ کچھ جھجک لحاظ ' مگر کاشف خود بے خوف ہو چکا تھا . وہ نہ کہ کر بھی سب کہ رہا تھا ' سب واضح کر رہا تھا تو کون کسی کا لحاظ رکھتا بھلا . اسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ کاشف اور بشریٰ ایک تکون تھے جس کا سب سے کمزور حصّہ وہ تھی ' صرف وہ .ناجائز رشتے اور تعلقات کتنے مضبوط ہو سکتے تھے ، وہ دیکھ رہی تھی .

وہ بشریٰ کے ساتھ جاتا تو واپسی پر ازالے کے لئے کچھ نہ کچھ لے آتا تھا . اب وہ غصّے اور طیش سے بھرا واپس لوٹتا تھا اور منتظر رہتا کہ وہ اس سے کچھ کہے اور وہ اسے بے عزت کر سکے .اس کے جسم کے چیتھڑے اڑا سکے . وہ اس کے تیور دیکھتی اور اپنے موڈ کو بھی ٹھیک رکھنے کی کوشش کرتی . ذرا سا منہ پھلانے اور ناراضگی ظاہر کرنے پر جو ہوتا تھا وہ اور بھی برداشت سے باہر ہوتا کیونکہ اسکی بے عزتی بشریٰ حرف بہ حرف سنتی تھی . وہ ایسے منظر کی منتظر رہتی تھی اور یا اسے کسی صورت بھی گوارا نہ تھا .

اس نے بشریٰ کی یہ حرکت کئی بار کاشف کو بتانے کی کوشش کی ' مگر وہ بات کے آغاز میں ہی بھڑک اٹھتا تھا اور شور مچانے لگتا تھا اور وہ اسی شور سے بچنا چاہتی تھی جبکہ وہ یہی شور چاہتا تھا . اتنا شور ک اس کا دماغ ماؤف ہو کر سوچنا سمجھنا اور کچھ کہنا ہی چھوڑ دے . اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا ' نہ ٹی-وی دیکھنا اور نہ ہی کہیں آنا جانا . وہ کیا تھی اور کیا ہو کر رہ گئی تھی . اس ایک مردود عورت نے اسے کیا بنا ڈالا تھا ' شاید بیوقوف ' مگر عورت اس معاملے میں بیوقوف نہیں ہوتی . صدف بھی نہیں تھی مگر جب راستے اور منزلیں ہی کھو جایں تو کوئی کیا کر سکتا ہے .

پہلے وہ دیوار کے پار کھڑی بشریٰ کو کھوجا کرتی تھی کہ وہ چھپی ہوئی تھی کہ نہیں ' مگر اب یہ بھی چھوڑ دیا تھا .