میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں کل ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
کسی کو اس کے دیکھنے نہ دیکھنے کی پروا نہ تھی تو وہ دیکھ کر کیا کر لیتی . اسے رہ رہ کر وہ دن یاد آتا تھا جب وہ سسرال سے نکل کر یہاں آئی تھی ' اکیلے رہنے ' زندگی انجوائے کرنے کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے تھے . وہ بہت تنہا ہو گئی تھی کاشف کا رویہ دن بدن خراب تر ہوتا جا رہا تھا. وہ اسے ذہنی مریض اور نجانے کون کون سے القابات کا کفن اوڑھا کر زندہ دفن کرنا چاہتا تھا . وہ بھی مر جانا چاہتی تھی .اسے بھی زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہ تھی کاشف کے لئے بشریٰ اور سبین ہی کافی تھے اور پھر بشریٰ کی ماں کا چکنا چپڑا انداز اور باتیں ' تو کیا اسکی کہیں گنجائش نہ تھی . کہیں بھی نہیں .
بشریٰ کی ماں دیکھنے میں بہت الله لوک خاتون لگتی تھیں مگر ان کے گھناونے کام شیطان کو بھی مات کرتے تھے. وہ ہر وقت صدف کی بد گوئی اور غصّے کی مثالیں دیتی پائی جاتیں . کاشف آتے جاتے سبین کو پیار اور بشریٰ سے حال احوال پوچھتا پھرتا اور وہ دکھ سے دیکھتی رہتی . اب بشریٰ اسے بے عزت بھی کرنے لگی تھی .
" کبھی کہتی ' تمہیں شوہر سے محبت نہیں ہے ' کبھی تم اسے ناشتہ نہیں دیتیں ' کبھی تم بد زبان ہو . کبھی جاہل اور کبھی گنوار کہتی ."
اکثر انکی لڑائی کے دوران وہ ناشتہ بھی نہ بنا پاتی . بشریٰ فورا ناشتہ لا کر کاشف کے سامنے چھوٹی میز پر سجا دیتی اور وہ جو صبح سے منتیں کرتی پھرتی ' اسکی ایک نہ سننے والا کاشف چپ چاپ ناشتہ کر لیتا . پہلے پہل تو وہ بھوکی رہتی اور ناشتے کی بھی پروا نہ کرتی تھی ' مگر اب وہ اکیلے بیٹھ کر ناشتہ کر لیتی اور بشریٰ اسے ملامت کرتی کہ اس نے شوہر کو بھوکا بھیجا تھا . جب کوئی خود بھوکا رہنا چاہے تو کون زبردستی اسے دے اور ایک نا پسندیدہ شخص آخر کتنی منتیں کر سکتا ہے .