" ارے جلدی سے کھانا نکال لاؤ بہت بھوک لگی ہے ."اس نے بھی خود ہی موڈ ٹھیک کر لیا تھا اور جلدی سے چکن کڑاہی کو ڈش میں نکالا اور روٹیاں وغیرہ رکھیں ٹرے سیٹ کی اور اندر چلی آئ .
" میں نے سوچا تم تھک گئی ہو گی اس لئے کھانا لے لیا اور ہاں کوک بھی تھی ' جاؤ وہ بھی لے کے آؤ . شاید وہ موٹر سائیکل کے ساتھ ہی ٹنگی رہ گئی" . وہ بھاگ کر دو گلاس میں برف اور بوتل ڈال کر بنا لائی . وہ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا . وہ پل میں صبح والی بات بھول گئی تھی اور شاید وہ بھی .
" صدف ! تم نا میری جان ہو ." وہ محبت بھری ننظروں سے اسے دیکھ رہا تھا .
" کاشف سبین دوائی نہیں پی رہی ." دیوار کے پار سے بشریٰ بولی تھی پھر خالہ جان نے گیٹ بجایا تھا جو کاشف نے فورا اٹھ کر کھول دیا تھا . وہ اندر نہیں آئیں تھیں ' باہر سے ہی بات کی اور چلی گئیں اور کاشف بھی ان کے ساتھ ہی چلا گیا تھا .
" لو ' پی لو میری جان ' تنگ نہیں کرتے ' منہ کھولو اب دیکھو میرے کہنے پر بھی منہ نہیں کھولو گی . "
وہ دیوار کے پار کھڑی سن رہی تھی . بشریٰ بھی پاس ہی تھی . یقیناً وہ یہاں اکیلی جل رہی تھی . کیونکہ بشریٰ اور اماں جی اس سے ناراض تھیں ' خود ساختہ ناراض .
شادی کے شروع کے دنوں کی خوش اخلاقی کا سارا لحاظ ہوا ہو چکا تھا . اسے بشریٰ اور سبین سے نفرت ہو گئی تھی . اتنی نفرت جتنی کوئی کسی ناجائز شراکت دار غاصب سے کرسکتا ہے . کوئی تھا جو نہ ہو کر بھی موجود تھا اور وہ بشریٰ تھی . اسکی چکنی چپڑی باتیں سمجھتے الفاظ ' اشاروں کنایوں میں کیے گئے اشارے ' اس کی کاشف سے گفتگو ' سب زہر تھی . خالص زہر . اب وہ اسے کاشف کے پاس کھڑے دیکھنے کی بھی خود میں ہمت نہیں پاتی تھی تو بشریٰ کی ماں ' کاشف کو گھیر گھار کر کسی نہ کسی طرح بشریٰ کے پاس لے ہی جاتی . اب اسے اس کی بیوی کے غصے کی بھی پروا نہیں تھی کسی چیز کی بھی نہیں .