معصومہ کی سوچ میں شفافیت تھی . وہ سوچتی تھی کے اپنے بچوں کے لئے تو کھانا بنا ہی رہی ہوتی تھی تو پھر بھلا دو اور روٹیاں بنانے یا چاۓ بنانے میں آخر کیا مضائقہ ہے . پرا بلم ٹیب ہوتی تھی جب ہر کھانے کے ' چاۓ کے اور عیشا کے دلیۓ کے برتن بے نیازی سے چھوڑ جاتی تھی .
معصومہ نے اپنے بچوں کا جو ابھی ابھی سکول سے آئے تھے ... ینیفارم تبدیل کیا . منہ ہاتھ دھلوایا اور کھانا لا کر کھلانے لگی . بچے ضدی تھے . ان کا تقاضا ہوتا تھا کے وہ آرام سے بیٹھ کر کارٹون دیکھیں اور ماں نوالے بنا بنا کر ان کے منہ میں ڈالتی جائے . معصومہ بھی مان جاتی تھی . اتنے میں زینب چیخ مار کر جاگ جاتی تھی. معصومہ کا کھانا وہیں رہ جاتا تھا اور وہ زینب کے کاموں میں جت جاتی تھی . وہاں سے فراغت ملتی تو بچوں کا ہوم ورک اور کچھ مضامین کا ٹیسٹ جس کی تیاری میں خاصا وقت لگ جاتا تھا .اس سارے دورانیے میں حرا روپوشی کا سفر جاری رکھتی اور جب مردوں کے انے کا وقت ہوتا تو سج دھج کر نیچے آ جاتی .
" بھابھی ذرا اپنی پنک لپ اسٹک دے دیں اور براؤن پنسل بھی ." حرا کا انداز دوک ٹوک ہوتا .
معصومہ فقط اسے ٹھنڈی اہ بھر کر دیکھ کر رہ جاتی . " وہاں پڑی ہے ، لے لو ."
معصومہ جانتی تھی کہ یہ محض دکھاوا ہے ، اور حرا سارے راستے جانتی ہے . تب ہی تو اتنی معلومات رکھتی تھی . جبکہ معصومہ سادہ سے حلیے میں ادھر ادھر پھر رہی ہوتی تھی اور اتنے میں اشعر آ جاتا تھا . جبکہ حرا کا چھمک چھلو والا گیٹ اپ اشعر کی نظروں میں ضرور آتا تھا .
حیدر کی ملتفت طبیعت ' حرا کا اٹھکھیلیاں کرنا اشعر کو ماضی کے دریچوں میں لے جاتا تھا . مگر معصومہ ان سب باتوں سے بے نیاز اشعر کے صبح کے کپڑے پریس کر رہی ہوتی تھی . جبکہ معصومہ کو پتا تھا کے حیدر اپنے کپڑے خود پریس کر لے گا نہیں تو اسے آواز دے گا .
" بھابھی ! یہ شرٹ تو پریس کر دیں ." اور معصومہ سے انکار نہ ہوتا ، مروت تو جیسے معصومہ ہی کے لئے رہ گئی تھی .
زندگی شاید یوں ہی رواں دواں رہتی اور معصومہ جو حرا کی چالاکیاں اور مکاریاں خوب سمجھنے لگی تھی ان پہ بہت کڑھتی تھی . مگر یوں ہوا کے عذرا آپا کی آمد ہو گئی .