معصومہ کا دل اس وقت خوب کڑھتا تھا جب سارے ہفتے کے برتن خود اسے حرا کے کمرے سے جا کر لانے پڑتے تھے . پلیٹ میں بغیر ڈھکے چاول نجانے کب سے پڑے ہوئے تھے . روٹیوں کے ٹکرے دوسری پلیٹ میں منہ چڑ ا رہے تھے . کئی کپ جو چاۓ پینے کے بعد گندے پڑے تھے . معصومہ سارے برتن نیچے لا کر دھوتی تھی . گھر میں کوئی بھی برتن گندا پڑا ہوتا تو اسے شدید کوفت ہوتی تھی . جبکہ حرا اس
معا ملے میں نہ صرف لا پرواہ تھی بلکہ کافی بے حس بھی ثابت ہوئی تھی . سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ حیدر بھی آنکھیں بند کیے بیوی کا غلام بنا بیٹھا تھا .جبکہ اشعر ہر معاملے میں معصومہ کو ڈانٹ دیا کرتا تھا . چاہے اس میں معصومہ کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو . دوسرے لفظوں میں اشعر کو معصومہ کی تذلیل کر کے دلی سکون ملتا تھا . جبکہ حیدر حرا کے سامنے چوں چراں بھی نہ کیا کرتا تھا . جیسا حرا کرنے کو کہتی تھی ویسا ہی کرتا تھا . یوں لگتا تھا جیسے وہ اسکا بے دام غلام تھا ، شوہر نہیں . روزانہ حرا کو نیچے صاف شفاف کچن ملتا تھا . برتن جو رات کو سنک میں پڑے ہوتے تھے وہ صبح تک معصومہ صاف کر چکی ہوتی تھی .
ہر چیز ٹھکانے پر رکھی ملتی تھی پھر بھلا دو پراٹھے بنانے میں کیا دیر لگتی . پھر ناشتہ کرنے اور میاں کو رخصت کرنے کے بعد وہ پھر عیشا کو لے کر اوپر والے پورشن میں گم ہو جاتی . پھر اس کی آمد تب ہی ہوتی جب دوپہر کا کھانا تیار ہو چکا ہوتا . عموما معصومہ اس وقت روٹیاں پکا رہی ہوتی اور حرا کوئی ایسی ترکیب لڑا تی کے عیشا رونے لگتی اور حرا آرام سے پکارتی .
" بھابھی روٹی بنا رہی ہیں ، میری بھی بنا دیں گی !"
اب اس سوالیہ نشان کے بعد انکار کی کوئی گنجائش ہی نہ بچتی تھی . یوں بھی معصومہ اپنے نام کی طرح بہت معصوم اور بے ضرر ثابت ہو رہی تھی . حرا آرام سے تازہ تازہ گرم روٹی لیتی اور عیشا کو سامنے بٹھا کر کھانے لگتی ' کھاتے ساتھ ہی وہ دودھ پتی کی فرمائش کر دیتی . معصومہ چاۓ کے کپ کی خود بھی طلب محسوس کر رہی ہوتی تھی . دو منٹ میں دودھ ڈال کر چاۓ کا برتن چولہے پر چڑھا دیتی تھی .