عذرا آپا ان دونوں کی بڑی نند تھی . جو لاہور میں مقیم تھیں . اور چند دنوں کے لئے اپنی بھابھیوں سے ملنے کے لیا آئی تھیں .عذرا آپا نے ایک دن معصومہ کی سب مصروفایت کا جائزہ لیا اور حرا کا بے نیازی والا انداز بھی دیکھا .پر سوچ نگاہوں میں گہری فکر پوشیدہ تھی . عذرا آپا کو معصومہ کا یوں گدھوں کی طرح کام کرنا بالکل پسند نہ آیا . انکو دلی غم نے مغموم کر دیا تھا .عذرا آپا کو اپنا ماضی یاد آ گیا تھا . جب وہ بھی یوں سسرالی رشتہ داروں کی آؤ بھگت کیا کرتی تھیں . انھیں کوئی صلہ نہ ملا تھا . بلکہ سب نے اسے ایک خراج سمجھ کر وصول کیا تھا . عذرا آپا نے فیصلہ کر لیا کے وہ معصومہ کو حرا کی چالاکیوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گی . وہ اسی سوچ میں گم تھیں کے کہاں سے آغاز کریں کے الله نے از خود ہی ایک رہ نکال دی .
وہ کہتے ہیں نہ کہ بیچ منجد ھار میں ڈوبنے والا اگر سعی نہ کرے ' کوئی دوسرا اسکی مدد نہیں کر سکتا . اسکو خود بھی ہاتھ پاؤں چلانے پڑتے ہیں . تب ہی راہ نکلتی ہے . دعا کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی کرنی پڑتی ہے . عذرا آپا کو ایک سنہری موقع نظر آیا تو تو وہ مسکرا دیں تھیں .
ہوا یوں کے عذرا آپا کے آتے ہی حرا نے بیماری کا ایسا رونا رویا کے سارے کام خود بخود معصومہ کی ذمہ داری بن گئے تھے .یوں بھی حرا تو لا تعلقی کی زندگی گزار رہی تھی . پھر اس وقت تو انتہا ہو گئی جب حرا نے اپنے ' حیدر اور اپنی بچی کے کپڑوں کا ایک انبار لا کر معصومہ کو دے دیا .
" بھابھی ! آپ یہ کپڑے دھو دیں گی میری تو طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے . کمزوری ہے ' نقاہت ہے اور چکر آ رہے ہیں ."
عذرا خاموش تھیں وہ اس تماشے کو انتہا کی حد تک دیکھنے کی متمنی تھیں . معصومہ جو تھکن سے چور ابھی ابھی کاموں سے فراغت حاصل کر کے مطمئن تھی کے اب آرام کرے گی . بالکل ہونق چہرہ لئے وہ اسے تکے جا رہی تھی . چاہتی تو صاف بات کرتی کے تھکی ہوئی ہوں مگر تھکن کا لفظ ہمیشہ کی طرح اس کی زبان سے ادا نہ ہوا تھا اور اپنے ناتواں کمزور واجد کو گھسیٹتے ہوئے گٹھڑیکھول کر کپڑے نکالنے لگی .