لیے حسین ترین تھا مگر اس کے لیے ایک کڑا امتحان۔
زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جب اس کی نسبت اس کے ماموں زاد طاہر کے ساتھ طے ہوئی۔ کہنے کو اک اور نئی بات سوچنے کو اک اور فکر ۔ دیکھنے کو اک اور خواب۔ جھیلنے کو ایک اور مصیبت۔ لوگ۔
لڑکیاں۔ سہیلیاں۔ کالج فرینڈزباتیں۔ سرگوشیاں۔ خواب اور چھوٹی چھوٹی خواہشیں ایک طرف۔۔۔۔ اور دوسری طرف ۔ گھر دو بہن بھائی (بچے) ابا۔ کام کاج' ذمہ داریوں کا بوجھ فکر ' احساس پڑھائی اور پل پل رنگ بدلتی زندگی۔ ایک فکر نہیں ہٹتی تو دوسری سراٹھاتی۔ ایک امتحان ختم نہیں ہوا تو دوسرا شروع۔ ایک ضرورت پوری نہیں ہوئی تو سو ضرورتیں اور نکل آئیں ، مگر ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے چند مسکراہٹیں تھیں ان بچوں کی' حوصلہ تھا۔ عزم تھا اور زندگی میں نیا آنے والا ایک شخص جو بالکل اجنبی تھا۔ جسے جاننا باقی تھا۔ گو کہ زندگی گزارنے کا کوئی ایک بہانہ نہیں تھا۔ سو بہانے تھے۔
وہ پہلی بار ملنے کے لیے آیا تھا اور اس کے پاس بولنے کے لیے جیسے کچھ تھا ہی نہیں ، وہی مسلسل بولتا رہا تھا۔
میری ماں تمہیں اتنا پسند نہیں کرتیں ان کی نظر میں تم میرے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ مگر میرے ابا تمہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تم سے زیادہ لائق فائق شاید ہی کوئی ہو اور میری نظر میں تم کیا ہو؟ کیا یہ نہیں پوچھو گی ؟"
اس نے نفی میں سر ہلا دیا بھول پن سے۔
"تم واقعی اتنی بھولی ہو یا ڈراما کر رہی ہو؟"
" مجھے ڈراما کرنا نہیں آتا ۔" اب کی بار وہ خفگی سے بولی۔
" تو پھر بولو نا جو تمہارے دل میں ہے میرے لیے اچھا برا جو بھی؟"
"میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔" اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔
" تم مجھے پسند کرتی ہو یا نا پسند۔۔۔ یہی بتا دو۔" وہ آسان زبان پر اتر آیا۔
" نہ پسند' نہ ہی نا پسند ۔" اس کا وہی انداز تھا۔
" تم میرے بارے میں کچھ تو سوچتی ہو گی نا! وہ عاجز آ گیا۔
" کچھ بھی نہیں سوچتی۔۔۔۔"
"کیا تم سوچتی ہی نہیں ہو سرے سے؟"
" میں سوچتی ہوں اور بہت سی باتیں۔۔۔۔"
"تو پھر وہی بتا دو۔۔۔۔۔" اس کی شکل دیکھنے والی تھی۔
" حرا کے لیے کتابیں خریدنی ہیں ، آفاق کے لیے نئے کپڑے چاہئیں۔ کل ٹوٹل اتنا خرچ ہوا' ابا کی دوائیاں لانی ہیں۔ فائنل امتحانات سر پہ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سنتے ہوۓ آپکو زرا بھی مزا نہیں آۓ گا۔"اس بار وہ خود کہتی ہوئی مسکرائی۔
" چلو تمہیں یہ تو پتا ہے کہ یہ سب سنتے ہوئے مجھے ذرا مزا نہیں آۓ گا۔ سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اچھا میں تمہیں کیسا لگتا ہوں ؟ وہ سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ " ٹھیک لگتے ہیں۔"
" بس ٹھیک ۔ " اس کا منہ لٹک گیا " یونیورسٹی میں بہت لڑکیاں مجھے پہ مرتی ہیں۔
دیکھو میں اسمارٹ ہوں' پڑھا لکھا ذہین بندہ ہوں۔ ایک خوش حال گھرانے سے تعلق ہے میرا' کیا تمہیں مجھ میں ایک بھی اچھائی نظر نہیں آتی ؟"
" آپ اپنی تعریف سنتا چاہتے ہیں لڑکیوں کی طرح۔"