" نہیں لڑکیوں کی طرح نہیں۔ ہر انسان اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔"
" اچھا چلو چھوڑو۔ میں تمہیں بتاؤں ہماری شادی کب ہو گی ؟“ وہ رکا ۔ ”میری پڑھائی کے ڈھائی سال باقی ہیں ، پھر میں جاب کروں گا اندازََ تین چار سال تو لگ جائیں گے۔ ابھی میں بائیس کا ہوں پھرچھبیسں کا ہو جاؤں گا تم بھی انیس کی ہو گی کچھ بڑی لگنے لگو گی۔ پھر ہم شادی کریں گے ٹھیک ہے۔ چار سال لمبا عرصہ ہے نا ! وہ کافی افسوس سے یہ سب بتانے لگا۔
" مجھے ایف اے نہیں کرنا۔ مجھے ایم اے کرنا ہے اور کمیشن کا امتحان دینا ہے۔ میں بہت پڑھنا چاہتی ہوں۔"
" چلو پھر تم پی ایچ ڈی کر لینا، بھلے جب تک میں بوڑھا ہی ہو جاؤں۔"
" نہیں میں اس سے بھی زیادہ پڑھوں گی۔" وہ جان بوجھ کر مسکرائی۔
" تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔"
" میں اب چلتی ہوں بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ ابا نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔" وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی اور بغیر کچھ سنے چل دی۔
پہلی ملاقات کچھ اچھا تاثر نہ قائم کر سکی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرا تھا۔ ان کے درمیان کا رشتہ بہت مضبوط اور پائیدار ہوتا جا رہا تھا ۔
کالج کی لڑکیاں اسے سو مشورے دیتی تھیں اور خود اس نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کو ایسا ہی پایا تھا۔ اس کے پڑوس کی لڑکیاں آئے دن رنگ گورا کرنے والی کریمیں فارمولے بنواتیں ۔ سج سنور کر باہر جاتیں۔ شوخ چنچل ادائیں ، ذومعنی جملے۔ اسے کبھی کبھار افسوس سا ہوتا وہ ان سب پر۔۔۔ مگر اسے اپنے کام سے کام تھا۔ اس کے پاس سوچنے کے لیے کئی باتیں تھیں۔ کئی مسئلے تھے۔ کالج سے یونیورسٹی کا سفر اور اس کی بڑھتی ہوئی بے شمار ذمہ داریاں۔
" مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" وہ بہت دیر سے فائل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔
" کام کے متعلق تو ہم بات کر چکے ہیں عمیر صاحب!"
" نہیں کام سے ہٹ کر دراصل میری اماں اور باجی آپ کے گھر آنا چاہتی ہیں۔ آپ کے بڑوں ملنے۔" یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں نیچے تھیں۔
" میرے تو کوئی بڑے نہیں ہیں۔ " وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی۔
" آپ کی بہن اور بھائی۔۔۔۔ بھائی کا ایڈریس دے دیں۔ میں مل لوں گا۔"
" میری بہن لاہور میں ہوتی ہے اور بھائی بھی مجھ سے چھوٹا ہے آپ کو کیا بات کرنی ہے ان لوگوں سے' جو بات کرنا ہے مجھ سے کرلیں۔"
"وہ بات یہ ہے کہ ۔" اس کے ہاتھ اب باقاعدہ کانپنے لگے تھے۔
" ٹائم ختم ہو رہا ہے، مجھے گھر کے لیے نکلنا ہے ۔ آپ سوچ لیں پھر بات کر لیجئے گا۔" وہ فوراََ ہی اٹھی تھی سیٹ سے۔
” میڈم ' میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" وہ فٹ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اس کے اٹھتے ہی۔
"بہت بر امذاق ہے۔ " اسے برا لگا تھا۔
"مذاق نہیں ہے' حقیقت ہے۔"
" آپ نارمل نہیں ہیں عمیر صاحب! جاتے وقت ڈاکٹر کی طرف سے ہو جائیے گا۔