ابھی تو وہ صرف ساتویں میں تھی۔۔۔۔۔ ابھی تو اسے بہت پڑھنا تھا۔ بہت آگے جانا تھا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے۔ کبھی وہ لکھ رہی ہوتی اور وہ دونوں رونا شروع ہو جاتے۔ وہ پریشان ہو جاتی۔
" ابا! آفاق فیڈر نہیں پی رہا۔ حرا مسلسل روئے جا رہی ہے۔
اور وہ اسے جھڑک دیتا ۔۔۔۔ اپنی بیماری کا سارا غصہ اس پر نکال دیتا۔ سارا دن بڑبڑاتا رہتا اور چھوٹے بچوں کو برابھلا کہتا رہتا جو کبھی اس کی خواہش تھی اب اس کے لیے عذاب اور بوجھ بن گئے تھے۔ پھر وہ بڑی اماں کی طرف دوڑ لگاتی۔
" بڑی اماں! آفاق فیڈر نہیں لے رہا۔ حرا روئے جا رہی ہے۔ میں کیا کروں ؟ انہیں اس معصوم سی ماں پر رحم آ جاتا اور وہ اس کے ساتھ کچھ دیر بچوں کو سنبھال لیتیں جب تک وہ کچھ اور بنا کر آتی۔
بڑی مشکل سے دو تین سال روتے روتے گزرے۔ اب اسے یہ تسلی تھی کہ وہ دونوں بڑے ہو رہے ہیں۔ کچھ تو وہ آسانی سے گھر کا کام کرلے گی یا پڑھ لے گی۔ بورڈ کے امتحانات اس نے کس افرا تفری میں دیے یہ صرف اسے پتا تھا۔ ابا کہتا تھا پڑھائی چھوڑ دے مگروہ کیسے چھوڑ دیتی اس کا بہت سا پڑھنا اس کی ماں کا خواب تھا۔ اگر وہ نہ پڑھتی تو اپنے بہن بھائیوں کو کیسے پڑھاتی۔
ایک دن وہ بھی آیا۔ جب وہ دونوں آہستہ آہستہ چیزیں پکڑ کر چلنے لگے اور بات کرنے لگے۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ دوڑ کر بڑی اماں کے پاس جاتی۔ ” آج آفاق نے یہ جملہ بولا۔۔۔۔ آج حرا نے یہ کہا۔۔۔۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہے۔" وہ اسے خوش دیکھ کر خوش ہو جاتیں۔
ابا کو کچھ بتاتی تو الٹا ییزاری دیکھنے کو ملتی۔ اسے یہی ایک فکر تھی کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں تو ساتھ خرچے بڑھ رہے ہیں۔ گو کہ اس نے سمجھ داری کے ساتھ خرچے کا حساب رکھا ہوا تھا۔ اپنی ضرورتوں سے بچا بچا کر ان کے لیے رکھتی اور ان کی ضرورتیں پوری کرتی۔
ایک دن وہ بھی آیا جب وہ دونوں کے ہاتھ پکڑے اسکول لے جا رہی تھی جب ان دونوں کے ہاتھ میں کتاب تھی اور اس کی خوشی کا تب بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ کتابوں کی بائینڈ نگ کرتی تھی۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی اور ان پیسوں سے وہ ان دونوں کے لیے کہانیوں کی کتابیں ، کلر پنسلز اور کورس کی کتابیں لیتی۔ وہ ساری چیزیں جو لینے کے لیے اس کا دل کرتا تھا اور وہ لے نہ پاتی تھی۔ وہ ساری چیزیں وہ ان کے لیے لیتی تھی۔ ویسے کپڑے جو اسے نہیں ملے تھے وہ ان کو دلاتی تھی۔
پانچویں کے بعد اس نے ان دونوں کو ایک درمیانے درجے کے پرائیویٹ اسکول میں ڈال دیا تھا اور اپنی خواہشیں تو کیا ضرورتیں بھی مار کروہ ان کا خرچا پورا کرتی تھی۔
رات کو سوتے وقت وہ دونوں اس کے بازو پر لیٹ کر کہانی سنتے ہوئے سو جاتے تھے اور وہ دیر تک جاگتی رہتی اور اپنے ذہن میں سارے اخراجات' پیسے' ارادے اور خواب ترتیب دیتی رہتی۔ گنتی پھر الٹی ہو جاتی۔ وہ پھر سے نئے حساب کتاب میں جت جاتی۔ اسے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے بہت تھوڑی رقم رکھنی ہوتی باقی اضافی اپنے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔
وہ تقدیر کے بنائے سیدھے راستے پر چلتی رہی۔ مگر اگے اس کے لیے مشکلات کا دور تھا۔ رنگین چکا چوند دنیا تھی ، کالج کا دور اور لڑکیوں کے