وہ دور کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ وہ دیکھتا رہا۔
وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پلیئر آن کیا۔
شام سے پہلے آنا۔۔۔۔۔ عالمگیر کی آواز گونجی گاڑی میں
دھوپ ساری ڈھل رہی ہو
پھول سارے کھل رہے ہوں
موسم سارے لے آنا
اس کی آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی۔
پھر وہی دن آئے ہیں
جانے کیا لے آئے ہیں
جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا
جینا تو اک بہانہ ہے
اسے بار بار آنکھیں صاف کرنا پڑی تھیں تاکہ سکرین صاف نظر آئے۔
اک تیرے آ جانے سے
مل رہے ہیں زمانے سے
جیون میرا سارا تیرا
دور اب کیا جانا
شام سے پہلے آنا
دھوپ ساری' اس نے ہاتھ بڑھا کر پلئیر بند کردیا۔ آنکھوں سے کتنے دنوں بعد پھر وہی سیلاب باہر آیا تھا۔
جو یاد نہیں کرنا چاہا وہی سب یاد کیوں آنے لگا تھا۔ گاڑی سے گھر تک' گھر سے بستر تک اور رات تک وہ تیز بخار میں جل رہی تھی۔
" کیا میری مشکلوں کا کبھی خاتمہ نہیں ہو گا ؟" بخار میں کروٹیں بدل بدل کر وہ یہ سوال کس سے پوچھو رہی تھی۔۔۔۔ خود سے یا پھر خدا سے۔۔۔۔؟
ساری مشکلیں، سارے کڑے وقت اسے یاد تھے۔ جب وہ بارہ سال کی تھی اور اس کی ماں دو جڑواں بچوں کو جنم دے کر مرگئی تھی، اس کی موت کی اصل وجہ کیا تھی۔ اس کا ٹھیک طرح سے نہ علاج ہونا یا پھر اور کچھ ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا۔ انہیں بچہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کو ٹھیک غذا نہ ملی۔ وہ کمزور تھیں' سوکھی چھڑی کی طرح اور جب ڈاکٹر نے کہا ۔ " بچے کو بچا سکتے ہیں یا ماں کو۔" تو اس کے باپ نے بچے کو ترجیح دی اور اس نے ماں کو کھو دیا۔
زندگی کا سب سے بڑا حادثہ اس کے ساتھ تب پیش آیا تھا۔
وہ اس صدمے سے شاید بہت دیر بعد نکلتی اگر وہ خاتون نہ ہوتیں جنہوں نے اس کی ماں کو بیٹی بنایا تھا ماں کے جانے کے بعد وہ عورت اس کا حوصلہ بنی رہی۔ اسے سمجھاتی رہی' حوصلہ دیتی رہی۔
اس کے باپ نے سمجھا تھا عنقریب وہ دوسری شادی کرلے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا، دوسرا حادثہ اس کے باپ کا ٹرک ایکسیڈنٹ تھا جس میں اس کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔ ماں کا جو بچا کھچا زیور تھا۔ وہ باپ کے علاج پر چلا گیا۔ اس کا باپ کچھ بہتر ہو کر گھر آ گیا تھا۔ مگر معذوری اور محتاجی نے ساری امید تو ڑ دی ۔ تب بھی وہ زندگی سے ہاری نہیں تھی۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اپاہج باپ کی خدمت اور دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور ساتھ میں پڑھائی جسے کسی صورت وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔