" شش۔۔۔۔" فراز نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور چہرے پہ سنجیدگی طاری کرنے تھے بعد ثمین اور صبا کی جانب مڑا۔
" کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟" انتہائی ادب سے پوچھا گیا۔
"آں۔۔۔" ایسے وحشت زدہ ماحول میں ایسا تمیزدار لہجہ۔ اپنی پریشانی سے نکل کر سر اٹھایا۔
" آپ ۔۔۔۔ کون؟" حالات نے اخلاق نبھانے پر مجبور کر دیا۔
" شاید آپ کو صحیح منزل کی جانب گائیڈ کر سکوں۔"
شرافت سے بن مانگے اپنی خدمات پیش کی گئیں۔
" اوه۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔ " صبا نے عجلت میں دوپٹے سے چہرہ صاف کرتے ہوئے ثمین کو سوچ کے مرحلے میں چھوڑ کر جھٹ سے پھول نگر کا ایڈریس
پوچھ لیا۔
" اوہ ۔۔۔ ویری بیڈ۔۔۔۔" فراز نے تاسف کا اظہار کیا۔
" کک۔۔۔ کیوں۔۔۔۔ کیا ہوا؟" صبا کی گھبرائی آواز ثمین کو بھی چونکا گئی۔
" دراصل۔۔۔۔ فراز نے گھڑی پر وقت دیکھا۔
" آخر آپ اتنا سسپنس کیوں پھیلا رہے ہیں' جلدی سے بتائیے' حیرت ہے آپ کو گرمی نہیں لگ رہی۔" ثمین کو اس اجنبی کی بے تکی ایکٹنگ پہ غصہ آ گیا۔
" کمال ہے مجھے بھلا گرمی کیوں نہیں لگے گی۔ میرے اوپر کوئی خفیہ چھتری تو نہیں تنی ہوئی۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ لوگ تھوڑا پہلے اتر گئی ہیں۔ اب آپ کو تقریبا" ایک میل پیدل چلنا پڑے گا۔"
"ہائے۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ہے۔" دونوں کی درد بھری چیخوں سے فراز کے کان سنسنا اٹھے۔
" اوکے' باۓ۔ آؤ رمیز!" فراز نے بہ عجلت کہا اور رمیز کا ہاتھ پکڑ کر تیز قدموں سے سڑک کے دوسری طرف کچے راستے میں اتر گیا۔
ثمین' صبا سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی اور شاید اس کی خاموش التجا تھی کہ اچانک ہی موسم بدلا اور تیز آندھی کے آثار پیدا ہو گئے۔
"یا اللہ تیرا شکر' ورنہ اس احمق دوست نے تو آج مروا ہی دیا تھا۔ " صبا کی گویا جان میں جان آئی۔
تب ہی وہاں سے ایک خالی تانگہ گزرا۔
"بھائی صاحب ! ذرا رکنا۔ " ثمین نے بے تابی سے اسے روکا جیسے وہی آخری سہارا ہو۔
"جی ہمیں پھول نگر جانا ہے۔ " بڑے التجا بھرے لہجے میں کہا گیا۔
" کیہڑے پھول نگر (کون سے پھول نگر)۔" ادھیڑ
عمر آدمی نے حیرت سے گھورا۔
"ہائے ثمین ! یہ تو جانتا ہی نہیں کہ پھول نگر بھی کوئی جگہ ہے۔" صبا روہانسی ہو گئی۔ چھکے تو ثمین کے بھی چھوٹے۔
" وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ جی ایک گاؤں ہے چھوٹا سا ۔ " گھبرا گھبرا کر کہا گیا۔
" او بی بی جی۔۔۔۔ یہی تو ہے پھول نگر' ہور تے کوئی وی نئیں۔" تانگہ بان نے گویا ان کی مشکل سمجھتے ہوئے اس کچے راستے کی سمت اشارہ کیا جس سمت میں وہ بد تمیز لڑکا اپنے ساتھی سمیت گیا تھا۔
" بہت بہت شکریہ جی! اللہ آپ کو خوش رکھے' آپ کے بچے جیتے رہیں، آپ کی بیگم آپ کی خدمت کرے، آپ کے۔۔۔۔"
"یار! بس بھی کرو' باقی دعائیں کسی اور کے لیے سنبھال کے رکھو۔"
ثمین بے خیالی میں نجانے کیا کچھ بولے جا رہی تھی کہ صبا نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ ثمین کے حواس بھی واپس آنے لگے۔
" جلدی بھاگ ورنہ یہیں نہانا پڑ جائے گا۔ " صبا نے پل بھر میں امڈ آنے والے سیاہ بادلوں کے تیور دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں بھاگنے کے سے انداز میں چل پڑیں۔