"یار! ویسے تو نے ان معصوم لڑکیوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔" نہا دھو کر فراز' رمیز کو اپنے کمرے میں لایا تو رمیز کو دونوں لڑکیاں یاد آ گئیں۔
" تو نے میرا گاؤں دیکھا ہے نا؟" فراز نے جواب دینے کے بجائے سوال داغا۔
" ہاں بہت خوبصورت اور سرسبز و شاداب ہے۔" رمیز نے دل سے تعریف کی۔
" تو پھر میں خوامخواہ ایک اجنبی لڑکی کو اپنے گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجانے دیتا۔ " فراز نے اپنے پلنگ پر دراز ہوتے ہوئے ناگواری سے کہا۔
" ہو سکتا ہے اس نے محاورتاََ کہا ہو۔"
"نہ تو مجھے یہ لگتا۔" فراز ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
" تو ان لڑکیوں کا ماما لگتا ہے یا بھیا جانی ؟" فراز نے گھورتے ہوئے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
" کہاں یار! تیرے سامنے ہی تو ملاقات ہوئی تھی' رشتہ داری کہاں سے ہو سکتی ہے ایسے۔" رمیز نے بہت سادگی کا مظاہرہ کیا جبکہ سوال کا طنز بہت اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔
"بہت شوق ہے ان سے رشتہ داری کا تو کل ہی۔۔۔۔" فراز نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
" تو کیا تم نے کل ملاقات کا وقت طے کر لیا تھا مگر کب' سارا وقت تو تم انہیں برا بھلا کہتے رہے تھے؟" رمیز نے بظاہر بھولے پن کا مظاہرہ کیا تو فراز نے پل بھر کو اوپر سے معصوم اور اندر سے شریر انسان کو بغور دیکھا اور تکیہ کھینچ کر اسے دے مارا۔
چوہدری شجاعت اپنے منشی رحمت کے ساتھ صبح کی سیر سے واپس آ رہے تھے جب انہوں نے عرصے سے ویران پڑے ہوئے اسکول کی چار دیواری کے باہر اسکول کا بورڈ لگتے ہوئے دیکھا۔
کافی عرصے سے یہ اسکول کسی قابل استاد کا منتظر تھا جو حکومت کی زبردستی سے نہ چاہتے ہوئے آ تو جاتے تھے مگر کچھ گاؤں کے اجڈ ماحول' بد تمیز بچوں کے باعث اور کچھ شہر کی آسائشوں کی یاد میں جلد ہی فرار ہو جاتے تھے۔
ماسٹروں کا بھاگ جانا چوہدری شجاعت کو بہت اچھا لگتا تھا، یعنی انہیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑتا تھا۔ بغیر کوشش کے ہی ماسٹر فرار۔
" لے بھئی' پھر کسی ماسٹر کی شامت آئی ہے۔"
چوہدری شجاعت نے ملجگے اُجالے میں بورڈ کے قریب کھڑے ہو کر پڑھا۔ "اس بار جی۔۔۔" رحمت بات ادھوری چھوڑ کر ہنسا۔
" کیا ہوا۔۔۔۔ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔" چوہدری جی کو غصہ ہی تو آ گیا۔
" وہ جی۔۔۔۔ بات ہی ایسی ہے، اس بارجی کسی ماسٹرنی جی کی شامت آئی ہے۔" رحمت نے گویا رازداری سے بتایا۔
" کیا مطلب؟" چوہدری شجاعت علی کی آنکھیں چمکیں۔
”ہاں جی میں نے خود ان کو کل اسکول کی صفائی کرواتے ہوۓ دیکھا تھا۔
" تو مجھے کیوں نہیں بتایا تھا۔" چوہدری شجاعت کا جذبۂ شوق ابھرا۔
" وہ میرا مطلب ہے ، میری اجازت نہیں چاہیے تھی؟" چوہدری جی نے اکڑ کر مونچھوں کو تاؤ دیا۔
چوہدری شجاعت علی کا شمار بھی عام روایتی چوہدریوں میں ہوتا تھا، جنہیں پشت در پشت چوہدراہٹ خود غرض بنا دیتی ہے۔
گاؤں کی آلودگی سے پاک ترو تازہ ہوا اور خالص غذا کے پروردہ چوہدری شجاعت نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا کہ بے جی کی بھانجی حاجرہ ان کی شریک حیات بنا دی گئی۔ خوبصورتی کے لحاظ سے حاجرہ چوہدری کی برابری تو کرتی تھیں لیکن جہالت میں چوہدری صاحب سے دو قدم آگے ، یعنی چٹی ان پڑھ ۔۔۔۔ جبکہ چوہدری جی تو پھر بھی میٹرک پاس تھے۔ انہیں پڑھنے کا شوق تھا لیکن بڑے چوہدری صاحب کی وفات کی وجہ سے یہ شوق پورا نہ کر سکے' وہ اپنی تعلیم کی کمی کا شوق چھوٹے بھائی چوہدری نواز علی کو تعلیم کے لیے شہر بھیج کر پورا کر رہے تھے لیکن اپنے احساس کمتری کی وجہ سے گاؤں کے اکلوتے اسکول کو اچھے استاد اور فرنیچر سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور اساتذہ کے لیے ہر سہولت کو حرام قرار دے دیا گیا تھا۔
لیکن استانی جی کا سن کر ان کی عاشق مزاجی کو جھٹکا سا لگا تھا۔ مزاج کسی حد تک رنگین اور عاشقانہ ہی پایا تھا۔ ویسے بھی تیس پینتیس سال کی عمر میں وہ بھلا گوشہ نشین کیسے ہو جاتے۔