ہر چیز سے تپش اور وحشت ٹپک رہی تھی ۔ مسافروں کی تعداد پوری ہونے پہ ہی کوچ اور اے سی کو چلنا تھا تب ہی ان سے آگے والی سیٹ پر دو مسلسل بولتی ہوئی لڑکیاں کسی وزنی سامان کی طرح گویا گرسی پڑیں ۔ ڈرائیور بھی جیسے ان ہی کے انتظار میں تھا، انجن کے ساتھ ہی اے سی بھی اسٹارٹ ہو گئے اور چند لمحوں میں ہر طرف سکون ہی سکون پھیل گیا۔ فراز نے سر پچھلی سیٹ پہ ٹکاتے ہوئے رمیز کی طرف دیکھا جو آنکھیں بند کیے بے دم سا پڑا تھا۔
" بے چارہ۔" فراز کو اس پر ترس آ گیا۔
"کون۔۔۔ " رمیز نے جھٹ سے آنکھیں کھول کر چاروں سمت دیکھا۔
" میں اور کون؟" فراز نے سرد آہ بھری۔
" کک۔۔۔۔ کیوں ؟" رمیز چونکا۔
"تمہارے جیسا ہم سفر جو ملا ہے۔" فراز دکھی سا ہو گیا۔
" یعنی۔۔۔ مطلب کیا ہے تمہارا؟" رمیز نے جل کر پوچھا۔
" ارے کوئی نازک سی حسینہ جمیلہ لڑکی میرے پہلو میں بیٹھی ہوتی تو واہ سفر کتنا مختصر اور خوب صورت ہو جاتا۔ " فراز نے رومینٹک ہیرو بننے کی شاندار ایکٹنگ کر ڈالی۔
یعنی اگر فاصلہ دس میل کا ہے تو تمہارے حسین ہم سفر کی وجہ سے پانچ میل رہ جائے گا۔ ویری فنی۔ " رمیز نے تیز آواز اور چڑے ہوئے لہجے میں کہا تو فراز کو ہنسی آ گئی جبکہ ثمین نے چونک کر کان پچھلی سیٹ سے لگا دیے۔
" ہش۔۔۔۔ سیدھی ہو کر بیٹھو ۔" صبا نے اسے ٹوکا۔ "لگتا ہے کوئی دلچسپ لوگ بیٹھے ہیں۔ ذرا سفر ہی اچھا کٹ جائے گا۔" ثمین نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
" ابھی تو تم آگ بگولا ہو رہی تھیں، اینٹ سے اینٹ بجانے والی تھیں۔ "صبا نے چھیڑا ۔
" ارے وہ سب سورج کی تپش کا اثر تھا' گرمی سے دماغ خراب ہوا جا رہا تھا۔" ثمین نے پر سکون لہجے میں کہا۔
" شکر ہے خدا کا ورنہ میں تو ڈر رہی تھی کہ ہنگامے میں تمہارا ساتھ دینے پہ مجھے بھی کہیں جیل کی ہوا نہ کھانی پڑ جائے۔ " صبا نے مبالغے کی انتہا کر دی تو ثمین اسے گھور کر رہ گئی۔
آخر خدا خدا کر کے ان کا مطلوبہ اسٹاپ آ ہی گیا۔ فراز اپنا بیگ لے کر اٹھا ہی تھا کہ دونوں لڑکیاں جیل سے چھوٹنے والے قیدی کی طرح اسے دھکا دیتی ایسے اتریں جیسے کوچ انہیں دوبارہ واپس لے جائے گی۔ فراز بھی دانت پیستا ہوا رمیز کو لے کر نیچے اترا تو دونوں لڑکیوں کو دھواں دھار بحث میں مصروف پایا ۔
" اب چلو بھی گرمی سے جان نکلی جا رہی ہے، ایک تو اے سی کا یہی نقصان ہے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔" صبا ڈوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کرتے ہوئے دکھی ہو رہی تھی۔ اتنے اچھے کلف دار سوٹ کا ستیا بلکہ اٹھیا ناس ہو چکا تھا۔
" کہاں چلوں۔ یہ تو معلوم ہی نہیں کہ جانا کس سمت ہے۔ " ثمین نے ہونق ہوتے ہوئے وسیع و عریض کھیتوں کے پھیلے ہوئے سلسلے کے دوسری جانب نظر آنے والے کچے پکے مکانوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔
" کیا۔؟" صبا نے بے ساختہ چیخ کے بعد غشی کی کیفیت کو زبردستی دھکیلا کہ آگ اگلتی زمین پر گر کر روسٹ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لہذا بمشکل حواس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ثمین کو آنکھوں ہی آنکھوں میں نکلنا چاہا۔
فراز کو اس صورت حال سے ایسا لطف آیا کہ وہ اپنی اور رمیز کی بدحالی کو بھول گیا۔
" وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ " جلد بازی کی وجہ سے سوچے سمجھے بغیر نکل پڑی تھی۔ اجنبی جگہ' کم علمی کی وجہ سے دل خوف سے دھڑک رہا تھا، لہذا بڑی ایمان داری سے اعتراف کرتے ہوئے اس کی آواز لرز سی گئی ۔
"ہائے ثمین۔۔۔۔ اب ہم کیا کریں گے رات ہو گئی تو کہاں جائیں گے۔" صبا نے ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر کے نئے خدشے کا اظہار کیا۔
" ہم کہاں جائیں گے؟" رمیز نے فراز کو دیکھ کر طنزا " پوچھا۔