SIZE
2 / 37

سرخ و سفید رنگت والا رمیز ابھی تک بڑے شہر کی چالاک اور تیز زندگی کا عادی نہیں ہوا تھا۔ سو زرا سی بات پر گھبرانے اور بو کھلانے لگتا۔

" جسٹ جوکنگ یار! ڈیسنٹ مردوں کو ایسے ہی رنگ مزید ہینڈ سم بناتے ہیں جیسے کے مجھے۔" فراز نے بس اسٹاپ پہ رک کر سہولت سے بیگ نیچے رکھا اور کالر جھاڑ کر کہا۔

" تم مجھے اس ابلتی ہوئی گرمی میں کیوں اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہو؟ میرے ویک اینڈ کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ تولیہ نما رومال سے چہرہ صاف کرنے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو اسٹاپ پہ دو لڑکیوں کو آپس میں الجھتے پایا۔

"میرے ویک اینڈ کا بھی تو ستیا ناس ہو رہا ہے۔ آخر دوست ہی دوست کے کام آتی ہے۔" دوسری نے لا پروائی سے کہا۔

"آخر ایسی کیا مجبوری ہے اور کچھ اتا پتہ بھی معلوم ہے کہ جانا کہاں ہے۔ " صبا نے چھتری سے مایوس ہو کر اسے زمین پہ پٹخا اور چڑ کر ثمین سے پوچھا۔

" یار! تمہیں بتایا تو تھا کہ آپا کے اسکول والوں نے ان کی ٹرانسفر ایک پھٹیچر سے گاؤں کے گم نام اور چھوٹے سے اسکول میں کر دیا ہے۔ آپا ہیں کہ نہایت احساس ذمہ داری کے ساتھ پھپھو کو لیا اور چارج لینے پہنچ گئیں۔ میں نے کہا بھی کہ منع کر دیں لیکن آپا کسی کو ناں تو کر ہی نہیں سکتیں۔ اب اس شدید گرمی میں نجانے ان کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ " ثمین نے خفگی بھرے لہجے میں تفصیل سنا ڈالی۔

" تو تم وہاں جا کے کیا کر لوگی ؟" صبا نے حیرت سے پوچھا۔

" میں پھول نگرکی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی۔" ثمین نے ڈرامائی لہجے میں بھاری پن پیدا کرتے ہوئے کہا۔

" پھول نگر۔۔۔ " صبا نے دہرایا۔

" پھول نگر۔۔۔ " زیرلب دہراتے ہوئے فراز نے چونک کر ان نازک وجودوں کی طرف دیکھا۔

" صبا پہلے کبھی بجائی ہے اینٹ سے اینٹ؟" صبا نے نہایت سنجید گی سے پوچھا۔ فراز کے اندر سب کچھ گویا ابلنے لگا۔ وہ تو اسی وقت ویگن آ گئی، ورنہ وہ ابھی اس لڑکی سے نپٹ لیتا۔ جلدی سے پہلے رمیز کو اندر گھسیڑا اور پھر خود بھی پیچھے ٹھنس کر بیٹھ گیا۔

ویگن میں گرمی کی حدت اور مردوں سے بھری ہوئی تھی بلکہ اوور لوڈنگ کی وجہ سے سانس گھٹنے لگا تھا۔

" یار سانس کیسے لوں؟" رمیز نے تقریبا " اپنی گود میں بیٹھے ہوئے آدمی کی اوٹ سے سر نکالتے ہوئے فراز کو بمشکل دیکھ کر پوچھا۔

" صبر میرے بھائی ، بس ابھی تھوڑی دیر میں اڈے تک پہنچ جائیں گے۔" فراز نے کسی بچے کی مانند رمیز کو تسلی دی لیکن اڈے تک پہنچتے پہنچتے اگر ایک مسافر اترتا تھا تو کنڈیکٹر تین کو زبردستی اندر ٹھونس لیتا۔ آخر خدا خدا کر کے ویگن کی قید سے آزاد ہوئے تو کتنی ہی دیر حواس بحال کرنے میں صرف ہو گئی۔ فراز کو اچانک ہی اس بد تمیز لڑکی کا خیال آ گیا۔ وہ کون ہوتی تھی اس کے گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی۔

" کیا ابھی مزید سفر باقی ہے؟" رمیز اسے کوچ کی طرف بڑھتے دیکھ کر خوف زدہ لہجے میں کراہا۔

"جی جناب! اب ہم اپنے گاؤں کے سامنے ہی اتریں گے۔" فراز نے ایر کنڈیشنڈ کوچ کے ٹکٹ لیتے ہوئے رمیز کو بہلایا۔

فضا میں عجیب سی حدت بھری تھی۔