SIZE
4 / 26

وہ بستر پر پڑا پڑا حکم چلایا کرتا اور باسمہ زر خرید لونڈی بنی ادھر ادھر بھاگ کر اس کا حکم بجالاتی۔ اگر اس روز اس کا کوئی قریبی دوست آ جاتا تو وہ اسے بھی وہیں اپنے بیڈ روم میں بلا لیتا۔ پورا چھٹی کا دن اس طرح گزرتا کہ وہ اگلے سارے ہفتے کے لیے تازہ دم ہو جاتا۔ اور یہی چھٹی کا مقصد بھی ہوتا تھا۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اسے ہفتہ کو ہی دفتر میں دیر ہو جاتی تھی۔ شاید وہ سارا ہفتہ سستی کرکے اپنا کام ادھورا چھوڑ جاتا تھا۔ جسے ہفتہ کو ہر صورت میں مکمل کر کے جانا ضروری ہوتا تھا۔ آج بھی وہ کام ختم کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا تھا' گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سگریٹ سلگایا۔۔۔۔

ایک کش لگا کے دھواں چھوڑا ۔ دھواں اس کے چہرے کے آگے پھیل گیا اور یک بیک اسے باسمہ کی خوشبو آنے لگی۔ تھکاوٹ میں اسے باسمہ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اس کی انگلیوں کے پوروں میں شاید طلسماتی عناصر لگے ہوئے تھے کہ دھیرے دھیرے مدہوش کر دیتی تھیں۔

رات۔۔۔۔ کلیاں۔۔۔۔ اور چاندنی

بس یہی باسمہ کی تعریف تھی مختصر مختصر۔

وہ زیر لب مسکرایا۔

باسمہ رات تھی۔

پُراسرار رات۔۔۔۔ پُر فریب نشہ آور۔۔۔۔ اور مستی سے بھری ہوئی۔

آدمی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرے، رات کے جادو سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ بالآخر اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتا ہے۔

کلیاں۔۔۔

کلیاں منہ بند ہوں تو بھی خوبصورت لگتی ہیں' کھلتی جائیں تو اور دل کش ہوتی جاتی ہیں۔ ان کلیوں کا کیا کہنا ہے جو ایک درمیانی اسٹیج پر آ کر رک جاتی ہیں۔ تھوڑا سا کھل کر یوں ساکت ہو جاتی ہیں جیسے کسی حسینہ نے ہنستے ہی دوپٹے کا آنچل دانتوں میں دبا لیا ہو۔ باسمہ اسی درمیانی اسٹیچ پر آ کر رک گئی تھی۔ نہ جانے امان کو ہمیشہ یوں کیوں لگتا تھا کہ باسمہ پوری طرح کھلی نہیں ہے۔ نہ وہ کلی ہے۔ نہ پھول ہے۔ درمیان میں کھڑی کھڑی آفت بن گئی ہے۔ اور اس پر سے سات' آٹھ سال گزر گئے تھے۔ کلیوں کی طرح دھیرے دھیرے مہکتی رہتی۔ پھولوں کی طرح خوش رنگ نظر آتی رہتی۔ حالانکہ اب تک اسے پتی پتی ہو کر بکھر جانا چاہیے تھا۔ بلکہ ان پتیوں کو بھی۔۔۔۔ پلنگ کی پائنتی تلے پامال شده راکھ میں مل جانا چاہیے تھا۔ آخرعورت کو خاک ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ چاندنی۔۔۔!

ایک کشادہ مسکراہٹ امان کے لبوں پر پھیل گئی۔ اور کے کاٹیں گی۔ باسمہ کو دیکھ کر بے اختیار چاندنی کا خیال آیا تھا۔ جہاں باسمہ ہوتی وہاں چاند ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتا۔ جانے اس کے ارد گرد اتنا اُجالا کیوں ہوتا؟ اس کی ذات کا اجالا تھا۔ اس کی محبت کی روشنی۔ امان کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مثال کو کس طرح واضح کرے؟ اور کیوں وہ باسمہ کو چاندنی سے ہم آہنگ کررہا ہے۔ مگر وہ جانتا تھا۔ وہ اس وقت کیا سوچ رہا ہے۔ اندھیرے اجالے میں جو عورت ایک جیسی محسوس ہو' اسے چاندنی تو کہا جا سکتا ہے؟ فرق صرف یہ ہے کہ آپ چاندنی کو چھو کر نہیں دیکھ سکتے' مگر اس عورت کو رگ جاں کے قریب محسوس کر سکتے ہیں۔

" جو بھی ہے۔" امان نے سگریٹ کا آخری ٹکڑا شیشہ کھول کر پھینکا

اور سوچا۔

" زہر ہے۔۔۔۔ الکوحل ہے۔۔۔۔ چرس ہے۔۔۔۔ نشے کی طرح لگ گئی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کوئی شوہر اپنی بیوی کے بارے میں ایسا سوچے اور وہ بھی شادی کے آٹھ سال بعد۔