جبکہ اس نے بچے کی صورت تک نہیں دیکھی۔
گاڑی گھر کے اندر داخل ہو گئی تھی۔ اس نے اسے گیراج میں بند کیا۔ وہ جانتا تھا۔ باسمہ نے اس کے اوپر آنے کا حساب رکھا ہوتا ہے۔ پچھلے موڑ سے جب وہ ہارن دینے لگتا ہے تو وہ اندانوں سے کھیلنے لگتی ہے۔
اب وہاں ہوں گے۔۔۔۔ اب یہاں ہوں گے ۔۔۔۔۔ اب گیٹ کے اندر آئے ہوں گے۔۔۔۔ اب گاڑی کو گیراج میں بند کر کے اوپر آ رہے ہوں گے۔
اور اسی حساب سے وہ ہمیشہ پہلی سیڑھی پر مل جایا کرتی' اماں کو چاند چکور کا یہ ملاپ پسند نہیں تھا' اس لیے وہ کئی بار حائل ہو جاتیں اور جتنی دیر بھی ممکن ہو سکتا امان کو اُوپر جانے سے روکے رکھتیں۔ وہ اگر اٹھ کر چل دیتا۔ تو اماں بی پیچھے پیچھے لپکتی جاتیں۔۔۔۔ پھر وہ پہلی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ کے خود ہی رک جاتا۔ مبادا اماں بی اوپر تک چلی آئیں اور ان ریشمی بانہوں کے حلقے ہار بننے سے پہلے محمل کے اندر چلے جائیں۔
"آج تو بڑی دیر لگا دی بیٹا ؟"
اماں بی ہر روز اسی سوال سے ابتدا کرتی تھیں۔ یہی سوال اگر اس کی بیوی پوچھتی تو وہ اسے پھاڑ کھاتا۔ مگر اماں بی کو ہر روز بڑے سکون سے ایک ہی جیسا جواب مل جاتا۔
" بس اماں ! آج دفتر میں کام کچھ زیادہ تھا۔"
حالا نکہ جب دیر نہیں ہوتی تھی ، تب بھی اماں بی یہی سوال کرتیں۔ چند
لا یعنی سوالوں کے جواب دے کروہ اوپر کو بھاگتا۔۔۔۔ بے تابی اس کے ہر قدم سے ظاہر ہوتی۔
باسمہ جانتی تھی جب ماں، بیوی بن کر نا موزوں سوالات کر رہی ہو تو اس وقت بیوی کو سر تاپا ماں بن جانا چاہیے۔ یوں آغوش وا کرنی چاہیے جیسے کہہ رہی ہو۔
" تم آ گئے ہو۔۔۔۔ تو قرار آ گیا ہے۔۔۔۔ بہار آ گئی ہے۔"
بس اس کے سواگت کی ہر ادا میں یہی فقرہ رچا ہوتا۔ اس لیے تو وہ اوپر جانے کے لیے بے قرار نظر آتا۔ اور بی اماں اس کے اس انداز پر دل فگار رہتیں۔ ان کا خیال تھا بہو نے ان کے لال پر ٹوٹے ٹوٹکے کر دیے ہیں۔
آج بھی جب وہ جلدی جلدی سیڑھیوں کا صحرا پار کر کے اپنی پیاس بجھانا چاہتا تھا' اماں بی درمیان میں آ گئیں۔۔۔۔ بے موقع ہی بولیں-
" کیسا کیسا اداس اداس اور دکھی لگ رہا ہے۔۔۔۔ تیری اجاڑ زندگی نے مجھے روگی بنا دیا ہے۔"
ہے۔ کیوں اہل بی۔ خدانخواستہ میری زندگی کو کیا ہوا سے خوش و خرم رہتا " کیوں اماں بی۔۔۔ میری زندگی کو کیا ہو گیا ہے؟" امان نے ہنس کر کہا۔ میں تو بہت مطمئن اور خوش و خرم رہتا ہوں۔"
"خاک۔۔۔۔ ذرا اپنا چہرا دیکھو۔۔۔۔۔ محرومیاں' بن جھروکوں کے جھانک رہی ہیں۔ ہائے بچے کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے۔ نو سال میں تو ایک مرجھایا ہوا درخت بن گیا ہے۔ بچوں سے تو زندگی میں ہر روز بہار آتی ہے۔
"اماں بی۔۔۔" امان زور سے ہنسنے لگا۔ جیسے ماں کا مذاق اڑا رہا ہو۔
”دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جن کے بچے نہیں ہیں۔ تو کیا وہ زندہ نہیں ہیں؟" " مگر بیٹا تجھ میں اور ان میں بہت فرق ہے۔ تو نے تو اپنے آپ کو خود زندہ درگور کر لیا ہے۔
" کیوں اماں بی۔۔۔ کیسے بھلا؟"
" ایک بانجھ عورت کے ساتھ نباہ کرنا' زندہ درگور ہونا ہے۔ ائے لاش کے پاس کتنے ہی ترو تازہ پھول رکھ دو۔ مرجھا جاتے ہیں' مر جاتے ہیں۔"
" اماں بی۔۔۔۔ اماں بی۔۔۔۔" امان کے لہجے میں تناؤ تھا۔
" یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں۔ اس کے کاموں میں دخل اندازی اسے پسند نہیں۔۔۔۔ اور مجھے تو ذرا بھی ملال نہیں۔"
ہے؟
" ائے ملال کیوں نہیں۔۔۔۔ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے۔"
امان چپ کر کے اوپر چڑھنے لگا۔ اب کچھ کہنا فضول تھا۔ وہ خوشی کا مزید اظہار کر کے ایک اور مصیبت مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ غنیمت کہ اس کی ماں اسے دکھی سمجھ رہی تھی۔