SIZE
3 / 26

جو بات قدرت کے اختیار میں ہو اس پر ناحق جان جلانا حماقت ہے۔ ایک دن اگر انسان یہ سوچ لے کہ وہ تو محض بساط کا مہرہ ہے۔ چلانے والا کوئی اور ہے' توشہ اور مات کے چکر سے ہی نکل جاتا ہے۔ ہاں اس کی زندگی تب عذاب بنتی جب اسے امان سے کوئی شکوہ ہوتا۔ اس گھر میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے امان کو پہچانا تھا۔

ماں کا ایک ہی بیٹا ہو۔ اور نازوں سے پلا ہو' تو وہ زندگی بھر بگڑا ہی رہتا ہے۔ بگڑے ہوئے بچے کو سدا ماں کی آغوش ہی اچھی لگتی ہے۔ اگر ماں کی گود سے نکلتے ہی اسے صحیح عورت نہ ملے تو پھر وہ طوائف کی گود میں پناہ لیتا ہے کہ طوائف ایک کھلی دکان ہے۔ وہاں ہر قسم کا فرمائشی سودا بکتا ہے۔ طوائف کے ہاں کچھ نہیں ہوتا ۔ ایک پہچان ہوتی ہے۔ گاہک کی پہچان، مرد کی پہچان' روٹھے ہوئے بگڑے ہوئے بچے کی پہچان' اپنے گاہک کو طلب گار بنانے کے لیے وہ گھڑی گھڑی روپ بدلتی ہے اور اسے لبھاتی ہے۔ یوں اس سے سارے رشتے ناتے چھڑا دیتی ہے۔ جانے باسمہ کو یہ سب کس نے بتایا تھا۔ پر یہ سب اس کے لاشعور میں تھا۔ اور اسے امان کو لبھانے کے سارے گُر آ گئے تھے۔ اس لیے اس نے ساری دنیا سے منہ موڑ کر صرف امان سے لولگا لی تھی۔ حتی کہ وہ اپنے اپاہج باپ کو بھی بھول گئی تھی۔ وہ ایک نامکمل عورت تھی۔ بچے کی طرف سے جو کمی تھی وہ اسے اپنی سعادت مندی، انکساری اور خدمت گزاری سے پوری کرنا تھی۔ جس عورت کی گود خالی ہو وہ تو اپنے مرد سے اونچی آواز میں بول بھی نہیں سکتی۔ باسمہ جھکتے جھکتے امان کے تلوؤں تک پہنچ گئی تھی۔ مگر خوبصورتی کی ادا کو اس نے برقرار رکھا تھا۔ یوں مسلسل اس کے نخرے اٹھائے جا رہی تھی جیسے وہ اس کا اکلوتا بچہ ہو۔ بیوی کی گود میں جب ماں کی شفقت بھی سما جاتی ہے تو عورت پورے کا پورا مرد جیت لیتی ہے۔ یوں امان کو اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کر اس نے ایک ماں سے اس کا بیٹا کلیتاً چھین لیا تھا اس لیے اماں کی جلی کٹی کا برا نہیں مانتی تھی۔ آخر اماں اس کو نہ کوستیں تو کس کو کوستیں؟ اور اماں بی تو ادھار رکھنے کی قائل نہ تھیں۔ جونہی امان گھر میں داخل ہوتا۔ ذرا سی دیر اماں بی کے پاس رک کر ان کا حال دریافت کرتا۔ اور پھر سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھاتا ۔ اماں بی اپنی محرومیوں کی مالا پرونے لگتیں۔ ان کی زبان کی نوک دار سوئی کبھی تو امان کے احساسات کو زخمی کرتی اور کبھی باسمہ کے کلیجے کے آرپار ہو جاتی۔ ادھر جھروکے میں کھڑی باسمہ۔۔۔۔ کلیجہ مسوس کر رہ جاتی۔ مگر پھر وہ مصلحت کے برش سے اپنی پیشانی کی ساری شکنیں صاف کر لیتی۔ اسے ہر حال میں امان کا سواگت پھولوں اور کلیوں کی صورت میں کرنا ہوتا۔ اسے معلوم تھا وہ جس قدر اپنی محبت کا کنواں گہرا کرتی جائے گی۔ اتنا ہی امان اس کے اندر اترتا چلا جائے گا۔ محبتوں کو نت نئی ادا عطا کرنے سے عشق مضبوط ہوتا ہے۔ شوہر کو عاشق بنانا ہو تو بوٹی بوٹی اس کے قدموں تلے بچھا دیتے ہیں۔

اور اس کی بانہوں میں پہنچ کر امان سوچا کرتا۔ پتا نہیں باسمہ کیا ہے؟ کس مٹی سے بنی ہے؟

کئی بار اس نے باسمہ کو الفاظ میں مجسم کرنا چاہا۔ مگر اس کے پیکر کے سامنے الفاظ کے پیرہن اتر گئے۔ وہ پہلے دن کی طرح آج بھی شاداب تھی۔ بھر پور تھی۔ مسرور تھی۔ کھلی پڑتی تھی۔ مگر مرجھاتی نہ تھی۔ مرجھائی ہوئی عورت سے مرد نفرت کرتا ہے۔ مرد کو گلاب کی طرح تروتازہ عورت بھاتی ہے۔ ٹوٹی ہوئی' مسلی ہوئی شاخ سے گری ہوئی۔۔۔۔ بیمار بیمار عورت مرد

کو اچھی نہیں لگتی۔

پتا نہیں باسمہ کون سا آب حیات پیتی تھی۔ ابھی تک ویسی ہی تھی۔

اسے نہ تو زندگی سے گلہ تھا نہ زندگی کی محرومیوں سے' اس کی آنکھوں میں امان ہی امان تھا۔ اور جیسے اسے امان کا نشہ دو آتشہ کیے دے رہا تھا۔

اس روز ہفتہ تھا اور امان کو دفتر میں دیر ہوگئی تھی۔ وہ باہر نکلا تو سڑک پر اندھیرا اور موٹروں کی بتیاں ایک ساتھ اتر آئی تھیں۔ وہ باسمہ کے بارے میں سوچنے لگا۔

ہفتہ کی شام باسمہ اس کا عجیب انداز میں سواگت کرتی تھی۔ باسمہ کا یہ انداز امان کو بڑا اچھا لگتا تھا۔ اور اس انداز پروه ساری رات فدا ہونے کو تیار رہتا تھا۔ پھر اگلے دن اتوار ہوتی' وہ دیر سے اٹھتے۔ سارا دن اور سارے لمحے اپنے ہوتے۔