اور اسے اللہ کی امان میں دے رکھا تھا۔ اس پر یکایک باسمہ نے اپنی مسکراہٹوں کا طلسم چھڑک دیا تو بی اماں کو باسمہ ڈائن کی مانند نظر آنے لگی۔ جو ہنستے بستے گھروں پر امر بیل بن کر چمٹ جاتی ہے۔
یوں وہ بہو بن کر آئی تو انہوں نے گردن ڈال دی۔ بیٹا اکلوتا ہو۔۔۔۔ ماں کی آنکھ کا تارا ہو۔۔۔ تو اسے من مانی اور خود سری کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ گھر کا اوپر والا حصہ بی اماں نے بہو اور بیٹے کو دے دیا تھا۔ ادھر دو کمرے' ایک غسل خانہ' ایک باورچی خانہ اور ایک دالان تھا۔ دو تین سال بی اماں بہو کے ہاتھ کا کھاتی رہیں۔ پھر یکایک انہیں بہو کے ہاتھ میں کیڑے نظر آنے لگے۔ کیوں نظر نہ آتے۔ تین سال ہو گئے تھے اور بہو کی کوکھ بنجر تھی۔
" یہ عشق کی ماری لڑکیاں۔۔۔۔ پتا نہیں کیا' کیا کرتی ہیں۔ کم بختیں کہ ان کی گود ہری نہیں ہوتی۔ ایسی صورت کو چاٹا کرے۔ عورت کا حسن تو بچہ سے ہے۔ جس عورت کی گود میں بچہ نہیں اس سے بدصورت کون عورت ہوگی؟"
" ائے یہ من مانیاں کر کے بزرگوں کا دل تو پہلے ہی تو ڑ دیتی ہیں انہیں دعا کون دے؟"
یہ تو باسمہ بھی سوچا کرتی تھی کہ دعا لینے کس کے پاس جائے؟ اے کاش
دعائیں بازاروں میں بکتی ہوتیں تو وہ اپنے سارے زیور بیچ کر انہیں خرید لاتی۔ ویسے تو ہر جتن کیا تھا اس نے محبت کی شادی میں ایک دھڑکا ہمیشہ جی کو لگا رہتا ہے۔ ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ اس نے لیڈی ڈاکٹروں کے ہاں چکر لگانے شروع کردیے۔ دوائیاں' انجکشن ، چھوٹی موٹی صفائیاں۔۔۔ سب کچھ ساس سے بالا بالا کروا لیا۔۔۔ اور تو اور کئی رازدار سہیلیوں کی معرفت تعویذ بھی منگوائے تھے مگر دعا کا مقفل دروازہ کھلتا ہی نہ تھا۔ یوں بھی اس کے سر پر ماں نہ تھی۔ ایک باپ تھا وہ بھی سدا کا پانچ برسوں سے چارپائی پر پڑا تھا۔
امان تو گھر میں لاڈلا تھا۔ مگر پانچ سال مسلسل اس نے باسمہ کے سڑکوں پر یوں ناز اٹھائے تھے کہ وہ بیمار باپ کو چھوڑ کر اس کے گھر آ گئی تھی۔
ابا جی سے کئی بار اشاروں کنایوں میں دعا کرنے کے لیے اس نے کہا۔ مگرپتا نہیں' باپ سے کیوں اس طرح بات نہیں ہو سکتی ، جس طرح ماں سے ہو سکتی ہے۔
پانچ سال ایک بنجر ڈگر پر کانپتے کانپتے۔ بالآخر اس نے صبر کرنے کی ٹھان لی کیونکہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے دو ہی اصول ہیں۔۔۔۔ صبربا جبر۔۔۔۔
اب توبی اماں بھی واشگاف الفاظ میں اسے کوسنے دیا کرتیں اور ہر آئے گئے کے آگے اپنے بیٹے کی نسل بندی کا ماتم کیا کرتیں۔
ان روز روز کی لڑائیوں میں ساس بہو کا کھانا الگ ہو گیا۔
باسمہ اس میں بھی خوش تھی۔
وہ ادھر یوں پڑی رہتی جیسے کسی اچھوت کو رکھا جاتا ہے۔ روٹی ' پانی الگ' برتن الگ۔
ویسے بھی اسے سہیلیاں بنانے اور گھومنے پھرنے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ بس شام کو امان کے ساتھ ہی کہیں چلی جاتی۔ ورنہ گھر پر پڑی رہتی۔
اس طرح ساس' بہو کا زیادہ آمنا سامنا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ویسے بھی اگر کسی عزیز کے آ جانے پر وہ نیچے جاتی یا اماں بی گھڑی بھر کو ادھر آ جاتیں تو وہ اپنا روایتی ادب و احترام برقرار رکھتی۔ جی' جی کرتی رہتی اور ان کی کڑوی کسیلی ہنس ہنس کے پیتی رہتی۔
دل میں بھی غصہ نہیں کرتی تھی۔