باسمہ آج پھر اسے نظر آ گئی تھی۔ یوں موٹر چلاتی ہوئی سڑک کے سینے کو روند رہی تھی جیسے کوئی بطخ پانی کے سینے پر رواں ہو۔ امان جب بھی اسے موٹر میں جاتا ہوا دیکھ لیتا اسے یوں محسوس ہوتا جیسے باسمہ سر پر تاج شاہانہ سجائے اسی وقار اور خود اعتمادی سے چلی جا رہی ہے۔۔۔۔ جو اس کی فطرت کا خاصا تھا۔
امان اس وقت ایک جنرل اسٹور کے باہر اپنے ایک دوست سے گپ لگا رہا تھا۔ باسمہ خوب بنی ٹھنی اس کے قریب سے گزر گئی تو اس کے دل میں سرخ سرخ آندھیاں سی اٹھنے لگیں۔ " دنیا اتنی بڑی جگہ نہیں ہے۔ " اس نے سوچا۔۔۔۔ اور جب آدمی ایک شہر میں رہتا ہو اور جدا ہوئے زیادہ سال بھی نہ گزرے ہوں تو ایک دوسرے کا سامنا ہو جاتا ہے کچھ ایسی تعجب انگیز بات بھی نہیں ہے۔"
پہلے بھی کئی بار بازار میں آتے جاتے ہوئے اس نے باسمہ کو یونہی تیز تیز انداز میں موٹر چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور ہر بار۔۔۔۔ یہ ایک دل جلا دینے والی گالی' زیر لب فضا میں پھینکی تھی۔۔۔۔ حرافہ ۔۔۔۔ کمینی' بے حیا! اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے غصے پر قابو پا کے سوچتا' اس نے باسمہ کو گالی کیوں دی تھی؟
جب کوئی مرد کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو اتنی مکروہ گالی اس کی پیشانی پر لکھ دیتا ہے جسے کوئی مقدس پانی بھی نہیں دھو سکتا۔
اب مزید گالیوں کی گنجائش کہاں تھی؟
اس نے ہلچل کرتے جذبات کو قابو میں لانے کے لیے سگریٹ سلگا لیا۔ وہی سگریٹ جس کا کوٹہ باسمہ نے مقرر کر رکھا تھا۔۔۔۔ ایک دن میں صرف تین۔۔۔ اور اب دن میں تیس، چالیس سگریٹ پی کر دل کو چین نہیں آتا تھا۔ اور اسے دیکھو، شوکیس کی گڑیا بنی پھرتی ہے۔ ہاں نئی نئی شادی جو رچا لی ہے۔ خوشی ہے۔ مسرور ہے۔ اور مجھ سے کہتی تھی۔ "جس دن تمہارے علاوہ مجھے کسی اور مرد نے چھو لیا تو میری موت واقع ہو جائے گی۔"
" حرافہ' بکتی تھی۔ " اس نے پھر اپنی سانس کی پھنکار کے ساتھ فضا میں زہریلے میزائل کی مانند ایک گالی چھوڑی' جیسے وہ سیدھی باسمہ کے کلیجے میں جا کے اترے گی۔ اب وہ یہ سب کچھ اپنے نئے شوہر سے کہتی ہوگی۔ اب اپنی ادا ئیں اس پر نثار کرتی ہوگی۔ سب بکواس کرتی ہیں یہ عورتیں۔
"یار! تم نے بھی تو وہ سب اپنی نئی بیوی سے کہا ہے۔۔۔ ذرا اپنا دل بھی تو ٹٹولو۔۔۔۔ کیا محبت کا کھیل تم نے دوبارہ نہیں رچایا۔ اور اس کی سیج تلے رچایا۔ ہرجائی تم ہو کہ باسمہ ہے؟"
" ہاں۔" اس نے دھیرے سے کش چھوڑا ۔
" باسمه تو ایسی عورت ہے کہ اس سے کوئی بھی مرد بے اختیار پیار کر سکتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے جانے کیسی مٹی سے گوندھا ہے کہ یہ ہمیشہ مہک دیتی رہے گی۔۔۔۔ ذرا دیکھونا' یوں جا رہی تھی جیسے مہ و سال اس پر سے نثار ہوتے ہوئے گزر رہے ہوں۔۔۔۔
خوب بن ٹھن کر رہنے لگی ہے۔ بال بھی کٹوا لیے ہیں۔ کتنی مسرور نظر آ رہی تھی۔ شاید اس کا نیا شوہر ہروقت اسے میک اپ میں دیکھنا پسند کرتا ہوگا۔
اورجانے کیا' کیا پسند کر ہوگا۔
امان کو اپنا دم گٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ اور باسمہ کو چھونے کے تصور سے ہی اس کے تن بدن میں ہزارہا قمقمے جل اٹھے۔ باسمہ جادو کی ایسی پٹاری تھی جس کے کھلتے ہی ہوش اڑ جاتے ہیں۔ جانے ہوش اڑانے کی ادا قدرت نے اسے بخشی تھی۔ یا اس نے زمانے سیکھی تھی۔ مگر وہ عقل و خرد کے سارے ٹھکانے پھونک کر اس کے آنگن میں آئی تھی' بی اماں کو تو وہ بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ اور کوئی عیب نہیں تھا اس میں۔ بی اماں اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی اپنی بھانجی رشیدہ سے کرنا چاہتی تھیں۔ اکلوتا بیٹا جسے وہ امان الله کہتی تھیں